چترال کے ریاستی دور میں طبقاتی نظام

0
class system in chitral

تحریر: ذاکر اللہ

چترال کے ریاستی دور میں یہاں ذات پات کا واضح نظام موجود ہوا کرتا تھا جس میں انسانوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے ان کو مختلف ذمہ داریاں سونپنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ  گروہ کے حساب سے سلوک برتا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ریاست چترال کے اندر شخصی حکومت ہوا کرتی تھی جس میں سب سے اوپر  یہاں کا حکمران (مہتر)، شاہی خاندان کے لوگ، ان  کے آس پاس کے رشتے دار اور دوسرے اثر ورسوخ  کے حامل قبیلےہوا کرتے تھے جنہیں آدم زادہ  کہا جاتا تھا۔

یہاں پر ایک دوسرا طبقہ ہوا کرتا تھا جسے ارباب زادہ  یا پھر یُفت کہا جاتا تھا۔ یہ عام طور پر مڈل کلاس کے لوگ ہوتے تھے ۔آبادی کا زیادہ تر حصہ انہی پر مشتمل تھا اور ریاست کی آمدنی ان کے دیے گئے ٹیکسز سے آتی تھی۔ اسی طرح سب سے نچلے اور پست تصور کیے جانے والے  طبقے کے لوگوں کو فقیر مسکین کہتے تھے جو کہ مزید کچھ حصوں میں منقسم تھے۔اگرچہ ان  تینوں طبقوں کے لئے استعمال کیے جانے والے الفاظ کھوار کے نہیں تھے لیکن لوگوں کی شناخت کے لیے مستعمل تھے۔

لوگوں کو اس طرح مختلف گروہوں اور طبقوں میں تقسیم کرنے اور انھیں الگ الگ ذمہ داریاں سونپنے  کا رجحان  روایتوں کے مطابق چترال کے مقامی حکمران  خاندان “رئیس” کے دور سے رائج العمل تھا جو کہ بعد میں کٹور دور میں بھی برابر چلتا رہا۔ چونکہ ریاست چترال زمانہ قدیم سے باہر کے حملہ آوروں کی زد میں ہوتی تھی اس لئے یہاں کے قبیلوں کو مختلف ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں اور انھیں الگ الگ نام دیے گئے تھے۔ اس حوالے سے کتاب “چترال دی سٹڈی آف سٹیٹ کرافٹ” میں لکھا ہے کہ “مہتر نے دشمن کے حملوں کو پسپا کرنے اور اپنی طاقت مضبوط بنانے کے لیے مختلف قبائل کے لوگوں پر بہت زیادہ اعتماد کیا تھا اور انھیں الگ لگ خدمات سر انجام دینے کے لئے مقرر کیا تھا”۔

کتاب “نئی تاریخ چترال”میں غلام مرتضیٰ بھی اس حوالے سے لکھتے ہیں،”دور کٹوریہ میں  اس ملک میں یہ طبقاتی تقسیم اس لئے  رائج العمل تھی کہ ان مختلف طبقوں پر حکومت کی طرف سے مختلف قسم کی ذمہ داریاں عائد تھیں۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس زمانے میں ریاست کی آمدنی کے کوئی مستقل ذرائع نہیں تھے اور اتنی آمدنی  نہیں تھی کہ فوج کے لئے اور رفاہ عامہ کے کاموں کے لئے مزدوری اور دیگر اخراجات کے لئے رقوم پوری ہو سکیں، اس وجہ سے حکومت رعایا سے ہی اپنی فوجی خدمات، بیگار، خوراک حاصل کر سکتی تھی”۔

People of Chitral in 1885, Photo taken by Lockhart Mission

چترال میں رائج یہ طبقاتی نظام کئی حوالوں سے ہندو مذہب کے اندر پائے جانے والے ذات پات کے نظام سے مچابہت رکھتا تھا جس میں لوگوں کو براہمن، کشتریا ، ویش اور شودر جیسے طبقوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔  لیکن کچھ لکھاریوں کا خیال ہے کہ یہ ہندومت میں پائے جانے والے ذات پات کے نظام جتنا برا نہیں تھا۔ ذیل میں ان طبقات کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے؛

آدم زادہ

یہ طبقہ ریاست چترال کے اندر سب سے معتبر سمجھا جانے والا طبقہ تھا۔اس میں چترال کے شاہی خاندان، ان کے عزیز و اقارب ،رشتہ دار اور دوسرے طاقتور طبقے شامل تھے۔ان کا کام ریاست کی حفاظت، ملٹری اور سول سروس کے علاوہ دوسرے اہم امور تھے جہاں انہیں تعینات کیا جاتا تھا۔ آدم زادہ طبقے کے اندر بھی لوگوں کو ان کی حیثیت، اثرو رسوخ اور مہتر سے قربت کی بنیاد پر دیکھا جاتا تھا۔ یعنی وہ آدم زادے جن کا شجرہ سیدھا جا کے یہاں کے حکمرانوں سے ملتا ہو وہ ذیادہ معتبر تصور کیے جاتے  تھے۔اسی طرح ان کے دوسرے عزیزو اقارب اپنا اپنا مخصوص مقام رکھتے تھے جنہیں بعض انگریز لکھاریوں نے فرسٹ کلاس اور سیکنڈ کلاس آدم زادہ کے نام سے مخاطب کیا ہے۔ آدم زادہ طبقے کے زیادہ تر لوگ مہتر کو عشیمت بھی دیتے تھے۔ [دی گیزیٹئر آف ایسٹرن ہندوکش

عشیمت کا سادہ مطلب خوراک دینا  یا خوراک دینے والے کا ہوتا تھا اس سے لفظ عشیمتک نکلا ہے یعنی خوراک دینے والے ۔جب مہتر چترال کسی علاقے کی سیر کرنے یا دورے پر  جاتا تو علاقے کے معتبر اور آ دم زادہ لوگ مہتر کے لئے کھانے پینے کی چیزوں کا بندوبست کرکے ان کو دعوت دیتے تھےاور تحفے تحائف پیش کرتے تھے۔ عشمیتک کا تعلق عموماً آدم زادہ طبقے سے ہوتا تھا۔ اس زمانے میں جب اس علاقے میں غذائی اجناس کی سخت قلت تھی، مہتر اور اس کے وفد کی مہمان نوازی ایک اہم ذمہ داری تصور ہوتی تھی۔

شروع شروع میں مہتر ان علاقوں کی سیر یا دورہ  خود کرتا تھا تو انھیں عشیمت دی جاتی تھی لیکن بعد میں اگر کسی وجہ سے مہتر ان علاقوں کی سیر کرنے سے قاصر ہو تو وہ شاہی فرمان بھیجا کرتا تھا کہ میرے حصے کا نوالہ (لوسنوک) مجھے بھیج دیا جائے اس سال میں علاقے کی سیر کے لئے نہیں آسکا تو یہ سامان مہتر تک پہنچایا جاتا تھا۔ [پروفیسر رحمت کریم بیگ کا یوٹیوب انٹرویو/ہندوکش ٹیلز]۔

 عشیمت مہتر کو بھیڑوں یا گندم کی صورت میں پیش کی جاتی تھی اور یہ عشیمتک  کی طرف سے مہتر کے لئے واحد ذریعہ آمدن تھی۔ [گزیٹئر آف ایسٹرن ہندوکش، کیپٹن ای۔ جی۔ بیرو]۔

آدم زادہ طبقے میں خود شاہی خاندان کے اندر بھی  تفریق پائی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر امان الملک کی وفات کے اس کے 20 بیٹے تھے۔تاہم ان میں سے صرف چار ہی شاہی تخت کے حقدار تھے [اوراق پریشان، ریاست چترال کی تاریخ کا تحقیقی جائزہ”، شہزادہ افتخار الملک]۔

باقی 16 بیٹوں کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ مہتر بننے کا دعویٰ کریں کیونکہ یہ بیٹے مہتر کی کنیزوں میں سے تھے جنہیں مقامی طور پر قومائی کہا جاتا تھا۔ مہترانِ چترال کے حرم میں بیک وقت کئی قومائی موجود ہوتی تھیں لیکن ان سے پیدا ہونے والی اولاد کو وہ درجہ حاصل نہیں ہوتا تھا جو مہتر کی اپنی بیگمات سے ہونے والی اولاد کو ہوتا [تاریخ چترال، منشی عزیز الدین]۔

بعض مصنفین کا خیال ہے کہ لوگوں کی اس طرح سے تقسیم نسلی نہیں بلکہ سماجی تھی ۔کیونکہ معاشرے میں نچلے طبقے کا کوئی بھی بندہ اگر دولت اور شہرت حاصل کرے تو ارباب زادہ یا مڈل کلاس میں داخل ہوتا تھا اسی طرح اگر ارباب زادہ یا مسکین یا فقیر کسی طرح بہادری یا فراخ دلی اور سخاوت سے آدم زادہ طبقے میں داخل ہوتا تھا یا پھر اگر مہتر چترال کسی غریب کو دولت سے نوازا دے تو وہ بھی آدم زادہ طبقے میں شمار ہو جاتا تھا۔ [دی گیزیٹئر آف ایسٹرن ہندوکش اور دی ملٹری رپورٹ آن چترال

ارباب زادہ

سماج میں دوسرا طبقہ ارباب زادہ کے نام سے مشہور تھا یہ معاشرے کا درمیانی طبقہ تھا  اور یہ  مڈل کلاس  کےلوگ ہوتے تھے انھیں عام طور پر یُفت بھی کہا جاتاتھا۔ آبادی کا زیادہ تر حصہ ان لوگوں پر مشتمل تھا۔

یُفت کے پاس اپنی ملکیت کی تھوڑی بہت ان کی اپنی ملکیتی زمینیں تھیں اور یہ ریاست کے لیے مختلف قسم کی خدمات سر انجام دیتے تھے۔ ان کا بڑا حصہ مہتر کے لئے جنگی خدمات انجام دیتا تھا۔ یہ لوگ مہتر کو عشیمت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مہتر کی ذاتی خدمات (شاداری) بھی کرتے تھے جس کے بدلے میں انھیں تحفے تحائف ملتے تھے جس میں زمین، گھوڑے، شاہین اور کپڑے شامل تھے۔ [چترال دی اسٹڈی آف سٹیٹ کرافٹ

اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ چترال آئی ڈی سکاٹ ارباب زادہ طبقے کے بارے میں لکھتے ہیں، “یہ درمیانی طبقے کے لوگ تھے۔ ان کا کوئی قبیلہ نہیں ہوتا تھا صرف خاندانی گروہ ہوتے تھے جو مہتر  کےلئے خدمات سر انجام دیتے تھے۔ یہ پورے چترال میں پھیلے ہوئے تھے اور آبادی کا زیادہ تر حصہ انہی پر مشتمل تھا ۔تمام لوگ عُشر دینے کے ساتھ ساتھ ملٹری خدمات بھی سر انجام دیتے تھے۔ سال میں دو مہینے کےلئے لازماً کام کرتے تھے جس کے بدلے میں انھیں دو مہینے کے لئے کھانا مل جاتا تھا یا پھر چترال خاص میں مہینے کے حساب سے دو روپے ملتے تھے۔ مزدوری میں ان کا کام سڑکیں بنانا، پل تعمیر کرنا اور قلعوں کی تعمیرات اور مرمت وغیرہ کرنا ہوتا تھا۔ ان میں سے بعض عُشر کے ساتھ ساتھ تھنگی بھی ادا کرتے تھے جوکہ بھیڑ بکریوں پر مشتمل ہوتا تھا”۔ [نوٹس آن چترال، آئی ڈی سکاٹ]

تھنگی ٹیکس کا ذکر کرتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل (ر) شہزادہ افتخارِ الملک اپنی کتاب اوراق پریشان میں لکھتے ہیں، “یہ ٹیکس درمیانی درجے کے لوگوں سے بھیڑ، بکری، مرغی و پنیر کی صورت میں لیا جاتا تھا۔ اس ٹیکس سے شاہی قلعوں کے لنگر چلتے تھے۔ یہ ٹیکس کٹور دور سے قبل رئیس دور سے موج تھا۔ یہ ان لوگوں سے لیا جاتا تھا جن کے پاس سرکاری زمین زیر کاشت ہو تاکہ ان کا بھی گزر بسر ہو اور سرکاری افسران و حکمرانوں کے بھی لنگر چلیں۔ عشیمت اور تھنگی نامی ان دونوں ٹیکسوں کی وصولی چارویلو اور اس کے زیر کمان براموش اود چھار بو کی ذمہ داری تھی”۔ [اوراق پریشان، ریاست چترال کی تاریخ کا تحقیقی جائزہ]۔

فقیرمسکین

معاشرے کا سب سے نچلہ طبقہ اسی طبقے کے لوگوں کو سمجھا جاتا تھا ۔اس میں  ریاست کے اندر پھیلی ہوئی مختلف نسلوں اور چھوٹے قبائل کے لوگ شامل تھے۔ یہ معاشرے کا پسا ہوا طبقہ تھا اور ہمیشہ حکمرانوں کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ۔ریاست کے لئے سڑکیں بنانا ،نہریں کھودنا ، قلعے تعمیر کرنا اور دیگر خدمات سر انجام دینے میں یہ لوگ آگے ہوتے تھے۔ [نئی تاریخ چترال، مرزا غلام مرتضیٰ]۔

ان لو گوں کو غلاموں کے طور پر بیچا اور خریدا جا سکتا تھا ۔ یہ رواج 1895ء  میں چترال پر انگریزوں کی عمل داری قائم ہونے  کے بعد ختم کر دی گئی۔ [دی آفیشل اکاؤنٹ آف چترال ایکسپیڈیشن]۔

غلام مرتضیٰ اس حوالے سے لکھتے ہیں،”فقیر مسکین  میں سے ایک طبقہ خانہ زاد تھا جو غلام ہوتے تھے یہ لوگ گھروں میں خدمت کرنےاور بار برداری وغیرہ کے کام بھی  کرتے تھے ۔” اس زمانے میں ان کی خریدوفروخت کا رواج دوسرے ہمسایہ ممالک کی طرح چترال میں بھی عام تھا۔ اس طبقے میں وہ لوگ بھی ہوتے تھے جو جنگوں میں قیدی بن کر بدخشاں، باشگل، تانگیر، داریل وغیرہ جیسےملکوں سے یہاں کے معزز طبقوں کے گھرانوں میں خدمات گار ہوتے تھے۔ بردہ فروشی اس زمانہ کے حکمرانوں کا ایک ذریعہ آمدن تھا ۔ البتہ حکمران سوائے آدم زادہ طبقے کے کسی کو بھی فروخت کرسکتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ رسم 1895ء میں انگریزوں کی چترال آمد سے ختم ہوگئی۔ ان کی فروخت اتنے بڑے پیمانے پر ہوتی تھی کہ ریاست کی آمدن کا تیسرا سب سے بڑا ذریعہ غلاموں کی خریدوفروخت تھی۔ [مضمون: “جب مہتر چترال اپنی رعایا کو غلام بنا کر بیچا تھا“، فخر عالم]۔

سردیوں میں مہتر کے لئے لکڑیاں کاٹ کر لاتے تھے اور گرمیوں میں فصلوں کی کٹائی کا کام ان کے ذمے تھا۔ ریاست چترال کے لئے صفائی کا کام، گھریلو مزدوری، زمینوں میں کھیتی باڑی اور مال مویشیوں کو چرانے کے ساتھ ساتھ مہتر کے بچوں کی دیکھ بھال کا کام یہی لوگ سر انجام دیتے تھے۔ [چترال دی سٹڈی آف سٹیٹ کرافٹ

چترال کی معیشت کا دارومدار انہی لوگوں کے اوپر منحصر تھا۔ یہ چترال کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہ لوگ اپنی ذمہ داریوں اور پابندیوں کی وجہ سے چترال سے باہر بھی نہیں جا سکتے تھے۔ بہتر مستقبل کی تلاش میں پشاور جانا بھی ان کے لئے منع تھا۔ پھر بھی ان کے ساتھ ریاست چترال کے اندر انتہائی ظلم اور سختی سے برتاؤ کیا جاتا تھا۔ آدم زادہ طبقے کے لوگ ان کی بیٹیوں کو بیوی اور کنیز بنا کر رکھتے تھے لیکن ان کو اپنی بیٹی رشتے میں دینا معیوب سمجھتے تھے۔

منشی عزیز ان کے حوالے سے لکھتے ہیں،”فقیر یا مسکین کتنا بھی بڑا کام کیوں نہ کریں، آدم زادہ نہیں بن سکتے۔ جتنی مصیبتیں اور مشقتیں ہیں ان کے لئے ہیں ۔وہی کھیتی باڑی کرتے ہیں ۔لکڑیاں کاٹتے ہیں۔ بوجھ اٹھاتے ہیں۔ خراج دیتے ہیں ۔شاہی احکام بجا لاتے ہیں ۔انہیں طبقے سے مہتر کے پیشکار بھی اپنی ضرورت کی چیزیں اور خدمت لیتے ہیں ۔ آدم زادے انھیں تباہ و برباد کرتے ہیں اور ان میں سے اپنے خدمت گار اور غلام چھینتے ہیں۔ اس ملک میں یہ فرقہ بہت مظلوم اور حیوانوں سے بھی بدتر حالت میں ہیں”۔ [“تاریخ چترال“ منشی عزیز الدین]۔

ملک کی باقاعدہ آمدنی صرف نچلے طبقے کے ذریعے ہی ادا کی جاتی تھی ۔وہ لوگ جو کاشتکاری زندگی گزارتے تھے وہ اپنی پیداوار کا دسواں حصّہ ،ایک بھیڑ ایک روایتی قالین اور 20 پونڈ شہد ہر گھر سے سالانہ وصال کرتے تھے۔اس کے علاوہ عام چرواہا سال میں چار بھیڑ، تین رسیاں (ہاتھ سے بھنی ہوئی) اور تیس پونڈ مکھن کا سالانہ ادا کرتے تھے۔ [ٹرائبس آف ہندوکش

فقیر مسکین طبقے کے کچھ ذیلی شاخیں یہ تھیں؛

خانہ زاد: غلام طبقہ جو گھروں میں کام کرتے تھے ان کی خریدو وفروخت بھی ہوتی تھی ۔ اس میں جنگی قیدی بھی شامل تھے۔

رایت: یہ حکومتی سامان ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل کرتے تھے۔ ریاست زمینوں میں کاشتکاری اور لکڑی کاٹنے کا کام بھی کرتے تھے۔

بولدویو: ریاست کےلئے سڑکیں بنانا، نہریں کھودنا اور قلعے تعمیر کرنا ان کا کام تھا۔

حوالہ جات

 The Gazetteer of Eastern Hindukush, Captain E. G. Barrow

 Gazetteer of Dardistan and Kafiristan, Captain E. G. Barrow

 Notes on Chitral, I. D. Scott

 An official Account of Chitral Expedition

نئی تاریخ چترال، غلام مرتضیٰ

 Chitral, A study of Statecraft, Prof. Rehmat Karim Baig

 Tribes of Hindukush, John Bidulph

 Military Report and Gazetteer on Chitral 1928, General staff India

تاریخ چترال کے حوالے سے پروفیسر رحمت کریم بیگ کا یوٹیوب انٹرویو، چینل: ہندوکش ٹیلز

تاریخ چترال، منشی عزیز الدین

جب مہتر چترال اپنی رعایا کو غلام بنا کر بیچا کرتا تھا”، فخرعالم”

اوراق پریشان (ریاست چترال کی تاریخ کا تحقیقی جائزہ)، لیفٹیننٹ کرنل (ر) شہزادہ افتخار الملک


تصحیح: آرٹیکل کے سابقہ ایڈیشن میں مہتر امان الملک کے بیٹوں کے حکمرانی پر استحقاق سے متعلق مصنف نے غلطی سے کتاب “اوراقِ پریشان” از کرنل (ر) شہزادہ افتخار الملک کا حوالہ دیا تھا۔ قارئین کی نشاندہی پر درست کتاب یعنی “تاریخِ چترال”، مصنف منشی عزیز الدین کا حوالہ درج کردیا گیا ہے۔ کتاب “اوراقِ پریشان” سے صرف مہتر امان الملک کے بیٹوں کی تعداد لی گئی ہے۔

نوٹ: کھواری کا بحیثیتِ ویب سائٹ مصنفین کی آراء اور تحریروں سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Posted on 10 May 2024

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *