چترال کا 1877ء میں کشمیر کے ساتھ ہونے والا معاہدہ کیا تھا؟
تحریر: ذاکراللہ
بھارت کے لوک سبھا میں 26مئی 1956 ء کو ایک ممبر شری بجیشوار پراسادنے ہال میں موجود بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے تین سوالات پوچھے۔”کیا بھارت کی حکومت نے چترال کے پاکستان سے الحاق کو تسلیم کرلیا ہے؟ کیاہنزہ نے بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کردیا ہے اور نگر اور پونیال کا پاکستان سے تعلق کیا ہے؟”
بھارت کے وزیر اعظم نہرو نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا،” 1877 ء سے مہاراجہ کشمیرکا چترال پر بالادستی موجود ہ تھی۔اس کے بعد مختلف اندرونی تبدیلیاں ہوئیں مگر کشمیر کی یہ بالادستی [چترال پر] موجود رہی۔۔۔بلکہ میں کہوں گا موجود ہے۔” اس کے بعد نہرو نے کہا،”سابق مہاراجہ نے جموں وکشمیر کا جو الحاق پیش کیا تھا اور جسے بھارت کی سرکار نے تسلیم کیا،وہ دراصل ان تمام علاقوں کے حوالے سے تھا اور [وہ علاقے ان میں ] شامل تھے جو مہاراجہ کی بالادستی کے نیچے تھے۔ یہ پوزیشن تبدیل نہیں ہوا ہے۔”اسی طرح جواہر لال نہرو نے پنیال، نگر اور ہنزہ کو بھی جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا اور کہا کہ یہ علاقے ابھی پاکستان کے زیر تسلط ہیں1۔
چترال اور گلگت بلتستان کے علاقوں پر جواہر لال نہرو کے دعوے پر پاکستان نے شدید احتجاج کیا اور اس وقت کی مغربی پاکستان کی اسمبلی میں اس کے خلاف 30مئی قرارداد بھی منظور کی گئی۔ پاکستان کے وزیرخارجہ حمید الحق چوہدری نے بھی اسمبلی میں اس بیان کی شدید مذمت کی۔ چترال نے تقسیم کے وقت نہ صرف خود پاکستان کا حصہ بننے کا انتخاب کیا تھا بلکہ مہتر مظفر الملک نے مہاراجہ کشمیر کے انڈیا کے ساتھ شامل ہونے کے فیصلے کی بھی مخالفت کی تھی۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نہرو نے 1877ء کے بعد چترال پر جموں و کشمیر کے مہاراجہ کی جس بالادستی کی بات کی تھی کیا وہ بات درست تھی اور یہ بات انہوں نے کس معاہدے کی طرف اشارہ کرکے کی تھی؟
چترال کی تاریخ میں کشمیر -چترال معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔یہ معاہدہ 1878ء میں کشمیر کے مہاراجہ رنبیر سنگھ اور مہتر چترال امان الملک کے درمیان طے پایا تھا اور معاہدے کے نتیجے میں مہتر چترال نے کشمیر کی سیادت اور بالادستی قبول کی۔
اس معاہدے کے لئے مذاکرات 1876ء میں شروع ہوئے اور 1878 ءمیں اختتام پذیر ہوئے۔یہ معاہدہ بڑے پیمانے پر برطانوی حکومت کے زیر اثر اور مدد سے طے پایا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب روس اور برطانوی حکومت کے درمیان اس خطے میں گریٹ گیم چل رہی تھی اور کشمیر گلگت اور چترال کا علاقہ کافی اہمیت کا حامل تھا جس کی وجہ سے برطانوی حکومت کی چترال میں دلچسپی بڑھ چکی تھی۔ چترال کا کشمیر کے ساتھ معاہدہ کرنے میں دلچسپی کے پیچھے افغانستان سے حملے کا خطرہ تھا۔ دوسری اینگلو افغان جنگ [1878تا 1880]کے دوران برطانوی حکومت ہمسایوں کو افغانستان سے علیحدہ رکھنے کےلئے بے چین تھی اور چاہتی تھی کہ چترال افغانستان کے زیرِ اثر نہ چلا جائے۔ دوسری طرف افغان حکومت کی طرف سے چترال پر ممکنہ حملے کا خطرہ تھا۔ ایسے میں مہتر چترال ایک ایسے قابل اعتماد دوست کی تلاش میں تھے جو اس کے سرحدوں کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کرے۔اس مقصد کے لیے اس وقت کشمیر کے مہاراجہ اور برطانوی اتحاد سے زیادہ موزوں دوست کوئی نہیں تھا اور برطانوی حکومت ہند نے کشمیر کے مہاراجہ کو چترال پر بالادستی قبول کرنے کی ترغیب دی2۔
ٹائمز آف انڈیا میں شائع ایک مضمون میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک لکھاری اس معاہدے کے بارے میں لکھتے ہیں، “1878کے معاہدے کے تحت مہتر کو مہاراجہ کے احکامات کی تعمیل اور اس پر عمل درآمد کرنا تھا ۔مہتر نے مہاراجہ کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھنا تھا اور کشمیر کو سالانہ نذرانہ ادا کرنا تھا اور مہتر چترال کو بھی ریاست کشمیر کی طرف سے سالانہ سالانہ امداد ملنی تھی3۔
یہ معاہدہ اچانک سے نہیں ہوا تھا کشمیر دربار اور چترال کے درمیان اس معاہدے کے لئے ایک لمبے عرصے سے بات چیت چل رہی تھی اور اس معاہدے کے لئے برطانوی حکومت ثالث کا کردار ادا کر رہی تھی۔میجر بڈلف کی گلگت اور چترال کے بارے میں رپورٹ اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ 1876ء میں جب وہ گلگت اور چترال میں کسی مشن کے تحت جب علاقے کی دریافت اور تحقیق کے لئے حکومت ہند کی طرف سے تعینات تھے تو انھوں نے دیکھا کہ چترال کا نمائندہ ایک خط گلگت بلتستان لایا تھا ۔یہ بہت اہم خط تھا جس میں یاسین اور چترال کی وفاداری کشمیر کو پیش کی گئی تھی ۔یہ خط کشمیر کے لئے ایک اچانک اور غیر متوقع تھا لیکن یہ اس وجہ سے ہوا تھا کہ چترال کو افغانستان سے مسلسل دھمکی اور حملے کا خطرہ تھا4۔
جون 11، 1878 ء کو حکومت ہند کی جانب سے سیکرٹری آف اسٹیٹ آف انڈیا کو لکھے گئے ایک خط میں واضح طور پر شمال مغربی سرحد کے تحفظ اور چترال ، مستوج اور یاسین کے علاقوں کی اہمیت کے بارے میں برطانوی حکومت کی رائے ظاہر کی گئی تھی اس خط میں سیکرٹری آف سٹیٹ آف انڈیا کو حکومت کی جانب سے افغانستان کی مشرقی سرحدوں اور کشمیر کے شمال مغربی سرحد کے درمیاں ہندوکش کے دروں کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔ خط میں مزید بتایا گیا تھا کہ یاسین، مستوج اور چترال پر پُرامن کنٹرول کو یقینی بنانے کےلئے حکومت کو کشمیر کے مہاراجہ کے وفادار جاگیر داروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تھی5۔
سن 1876ء کے وسط میں چترال سے ایک سازگار مواقع فراہم ہوا جب جعفر علی جو پیغام رسانی کے فرائض انجام دے رہا تھا چترال سے سری نگر پہنچا۔ اسی سال دو بارہ ایک اور قاصد ایک اہم خط لے کر کشمیر گیا جس میں کشمیر کے مہاراجہ کے سامنے رسمی وفاداری پیش کی گئی ۔خط میں کہا گیا تھا کہ نہ صرف چترال کا سردار یاسین اور مستوج کا راجا پہلوان بھی کشمیر کی سر پرستی قبول کریں گے6۔
کیپٹن Barrow کے چترال کی کشمیر کے ساتھ وفاداری کے بارے میں بیان کو گزیٹر آف ایسٹرن ہندوکش میں کچھ اس طریقے سے بیان کیا گیا ہے، “1874ء میں چترال کے مہتر امان الملک نے افغانستان کے امیر کے ساتھ وفاداری پیش کی اور امیر کے بیٹے عبداللہ جان کو اپنی بیٹی دینے کا وعدہ کیا ۔ لیکن وفاداری اور شادی کبھی عملی شکل اختیار نہیں کر سکی۔1876 ء میں افغانوں نے چترال کی طرف سے پیش قدمی کی اور امان الملک نے 1877 میں چترال کی تحفظ کے لئے کشمیر کی مدد طلب کی یہ معاہدہ کشمیر کو چترال پر حقیقی اثر رسوخ نہیں دیتا مگر کشمیر نے چترال کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی تھی7۔”
بڈلف نے لکھا کہ برطانوی حکومت چترال کے مہتر اور کشمیر کے دربار کے درمیان باہمی تعلقات میں گہری دلچسپی رکھتی تھی۔1876 ء میں ہندوستان کے وائسرائے نے اسی مقصد کےلئے کشمیر کے مہاراجہ سے مدھپور میں ملاقات کی جس میں وائسرائے نے یاسین اور چترال کو کشمیر کے کنٹرول میں لانے کے بارے میں اپنی رائے اور خواہش ظاہر کی۔اگرچہ کشمیر اور چترال کے درمیان ایک اچھا اور باہمی سمجھوتہ تھا لیکن پھر بھی کشمیر کے مہاراجہ نے وائسرائے سے تحریری اجازت طلب کی تاکہ وہ کسی مشکل کا سامنا نہ کرے اور مستقبل میں کسی بھی قسم کی مشکلات سے بچ سکے۔ برطانوی حکومت نے نہ صرف مہاراجہ کی درخواست پر عمل کیا بلکہ انھیں پانچ ہزار رائفل اور مناسب مقدار میں گولہ بارود بھی پیش کیا 8۔
یہ معاہدہ کشمیر کے مہاراجہ کےلئے ایک لین دین کا معاہدہ تھا ۔ اگرچہ وہ چترال کے مہتر کو سالانہ وظیفہ دیتا تھا لیکن اس سے زیادہ فائدہ برطانوی حکومت سے حاصل کرتا تھا۔ اسی وقت وائسرائے نے گلگت میں ایک سیاسی ایجنٹ تعینات کرنے کی خواہش ظاہر کی تاکہ برطانوی ٹیلیگراف کے ذریعے علاقے کی معلومات حاصل کی جا سکے۔مدھ پور میں17 اور 18 اگست 1876 ء کو ہونے والے اجلاس کے بعد یاسین اور چترال کے ایجنٹ دہلی پہنچے تاکہ شاہی اجتماع میں شرکت کر سکیں ۔ اس اجتماع کے بعد چترال کے ایجنٹ بیرام شاہ دو نمائندوں کے ہمراہ چترال واپس آگئے جس مہاراجہ کی طرف سے تھے تاکہ مزید دوستانہ مذاکرات جاری رکھ سکیں۔
اسی دوران امان الملک کا ایک اور خط گلگت پہنچا جس میں چترال کے مہتر نے اپنی وفاداری دہراتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے نظام الملک کو راجہ پہلوان شاہ کے ہمراہ آنے والے مواسم بہار میں مذاکرات کی تیاریوں کے لئے گلگت بھیجے گا 9۔
سن1877ء کے موسم بہار میں چترال اور کشمیر کے درمیان کئی خطوط کا تبادلہ ہوا اور 9 جولائی 1877ء کو نظام المک ، پہلوان شاہ بہادر ، میر یاسین اور گلگت کے گورنر کے درمیان ایک اجلاس منعقد ہوا ۔اس اجلاس کا بنیادی مقصد چترال کے مہتر اور میر یاسین کو وفاداری یقین دہانی کرانا اور انہیں مالی تحفہ دینا تھا۔
کشمیر کے مہاراجہ کی دلچسپی چترال کے ساتھ ہی محدود نہیں تھی بلکہ وہ اپنے اثر رسوخ کو دیر سوات اور باجوڑ میں بھی پھیلانا چاہتے تھے10 ۔اکتوبر 1877 میں کشمیر میں موجود ایک چترالی نمائندے کو سری نگر سے چترال بھیجا گیا تاکہ امان الملک کے قبول کرنے کے لئے مجوزہ معاہدہ پہنچایا جا سکے ۔امان المک کی منظوری کے بعد معاہدہ 1878ء میں گلگت میں واپس بھیج دیا گیا ۔ یہ معاہدہ فارسی میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے کچھ حصوں کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔
“نیک نیتی اور دوستانہ ارادے کے ساتھ میں (امان الملک ) اس عہد نامے کو اپنے اور اپنے بچوں کی طرف سے درج ذیل شرائط کے ساتھ مکمل کرتا ہوں۔
آرٹیکل نمبر ا
میں (امان الملک) عہد کرتا ہوں کہ میں ہمیشہ خلوص نیت سے مہاراجہ ولی جموں کشمیر کے احکام کی پیروی اور ان پر عمل درآمد کروں گا کہ میں ظاہر اور باطن دونوں طور پر ان کی خیر خواہوں اور دوستوں کو اپنا دوست سمجھوں گا اور حکومت کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھوں گا۔ میں ہر سال مہاراجہ کو ان کی اعلیٰ طاقت کی تصدیق کے طور پر درجہ ذیل نذرانے پیش کروں گا۔
- تین گھوڑے
- پانچ باز
- پانچ شکاری کتے
آرٹیکل نمبر 2
علی حضرت کا ایک خفیہ ایجنٹ ہمیشہ قشقار( چترال ، اس معاہدے میں چترال کا نام قشقا رہے) میں مقیم رہے گا اور دوسرا یاسین میں۔ ان دونوں کا پورا خیال رکھا جائے گا۔
اسی طرح میرا ایک خفیہ ایجنٹ مہاراجہ کے دربار میں مقیم ہوگا اور یاسین کے حکمران کی طرف سے دوسرا گلگت میں مقیم رہے گا تاکہ اعلی ٰحضرت کے احکامات کو پورا کیا جا سکے۔
آرٹیکل نمبر3
مجھےاعلیٰ حضرت کی طرف سے سالانہ 12000 روپے سری نگر سکے میں امداد میں ملیں گے۔بشرطیکہ میں اوپر درج باتوں پر عمل کروں اور ہر طرف سے اعلیٰ حضرت کو مطمئن کروں۔
اگر میرے بیٹوں میں سے کسی ایک کو مذکورہ بالا ایجنٹ کی جگہ مقرر کیا جائے تو اعلیٰ حضرت کی حکومت کی طرف سے اضافی الاؤنس دی جائے گی۔
مجھے 10000نظام الملک کو 2000 سری نگری روپے۔11″
اس معاہدے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جموں و کشمیر اور برطانوی حکومت چترال کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔ اگر چہ وقتی طور پر اس معاہدے کی وجہ سے چترال پر افغانستان کی طرف سے پیش قدمی کا خطرہ ٹل گیا لیکن اس معاہدے کی وجہ سے چترال کی آزاد اور خودمختار حیثیت کے اوپر کئی موقعوں پر سوالات اٹھائے گئے۔ 1956 میں جواہر لال نہرو کا دعویٰ بھی مہترِ چترال اور کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ کے مابین اس معاہدے کی بنیاد پر تھا۔اس معاہدے کے بعد برطانوی حکومت کی چترال پر اثراندازی مزید بڑھ گئی اور 1895 ءمیں اپنی پسند کا مہتر،شجاع الملک کی تخت نشینی کی صورت میں چترال کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت پر منتج ہوئی جس کے بعد چترال کی خودمختاری جزوی طور پر انگریزوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔
۔۔۔حوالہ جات۔۔۔
- Parliament of India, Lok Sabha, Digital Library, Debate 26 May 1956
- The Land and People of Chitral, M.A Thesis, Naveed Iqbal
- Kashmir, a flawed historical narrative, Times of India, by Raghavendra Singh
- Memorandum by Major biddulph on Gilgit affair
- British Correspondance related to Chitral, 1895
- ایضاً
- The Gazzetter of Eastern Hindukush, Captain E.G.Barrow
- Memorandum by Major Biddulph
- Correspondance related to Chitral
- Memorandum by Biddulph
- Aitchison, collection of treaties , engagement and sandak
Uploaded on 30 August 2024