Budhist sites in chitral

تحریر: سرور صحرائی

چترال کے اندر مقامی طور پر کسی نے بدھ مت کے اثرات پر آج تک باقاعدہ تحقیق نہیں کی ہے۔ تاہم چیلاس، داریل، تانگیر اور گلگت بلتستان کے دوسرے متعدد مقامات پر بدھا کی چٹانی شبیہیں، کتبے، سٹوپہ کی اشکال اور بدھ مذہب کی سرپرستی کرنے والے حکمرانوں کے ناموں کی ایک طویل فہرست ملتی ہے جنہیں مختلف محققین نے یکجا کیا ہے۔ واخان میں بھی سٹوپے اور کتبے ملتے ہیں۔ بڑی تعداد میں ان چٹانی کتبوں اور اشکال کی گلگت بلتستان میں موجودگی وہاں بدھ مت کی مقامی طور پر ریاستی سرپرستی کو جہاں ظاہر کرتی ہے وہاں اس مذہب کے ماننے والوں اور اس کی اشاعت کے لئے مشنری انداز میں کام کرنے والے حکمرانوں اور بدھ بھکشوؤں کی بہتات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ کسی باقاعدہ تحقیق کے نہ ہونے کے باوجود چترال کے اندر رائین توریکھو، چرُن اور برنس کے سامنے پختوردینی کے مقامات پر بدھ مت کے سٹوپوں کو دریافت کیا گیا ہے اور وہ بھی بیرونی محققین اور ماہرین آثار قدیمہ کے طفیل ممکن ہوچکا ہے جنہوں نے انہیں پڑھا اور سنسکرت یا جو بھی زبان میں یہ کتبے ہیں، انکا انگریزی میں ترجمے کرائے. ان محققین میں کننگھم، بڈلف اور آریل سٹئین شامل ہیں اور ساتھ ساتھ ان کتبوں کے زمانے کے تعین کے سلسلے میں پاکستانی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر احمد حسن دانی کی خدمات بھی شامل ہیں۔

Charun chitral budhist site
چرُن اپر چترال میں ایک پتھر جس پر ماہرین کے مطابق ایک بدھ راجہ کا نام کنندہ ہے

سننے میں آتا ہے کہ اس طرح کے سٹوپے چترال گول کے اندر ایک پتھر پر بھی ملتے ہیں مگر بتایا جاتا ہے کہ اس کا ایک حصہ توڑا گیا ہے اور نصف باقی ہے۔ جغور گول کے اندر بھی ایسے سٹوپوں کی اشکال چٹانوں پر کندہ ملتی ہیں۔ لوگ ایسی اشکال اور کتبوں کو اکثر آج کل کے دور کے راستوں کے آس پاس ڈھونڈنے کو کوشش کرتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ یہ چیزیں وہاں ملیں۔ اس کے بجائے قدیم اور متروک مقامات اور راستوں پر انہیں تلاش کی جا سکے گی۔ مرحوم فراموز خان اسکرا کے مطابق چترال شہر میں موجودہ جنگ بازار کا علاقہ قبل از اسلام دور میں مختلف قسم کے بتوں کے لئے مشہور تھا جن کو شاہ ناصر رئیسہ کے دور میں تباہ کیا گیا۔ اس بات میں وزن اس لئے ہے کہ ٹھینگ شین نام سے جنگ بازار کے بالائی حصے میں کسی پرانی عمارت میں استعمال شدہ پتھروں کا ملبہ ملتا ہے۔ مقامی روایات میں اس مقام کو “ٹوپیان نغور” یعنی ٹوپیوں کا قلعہ یا قیام گاہ کہا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ہو نہ ہو زیرین چترال میں بدھ مت کا مرکزی ‘چیتیہ’ اور سٹوپہ کا مقام موجودہ جنگ بازار کا کوئی حصہ تھا۔

چرُن، رائین اور پختور دینی کے کتبوں کے لکھنے کا دور آریل سٹئین اور ڈاکٹر احمد حسن دانی پانچویں اور چھٹی عیسوی قرار دیتے ہیں جس وقت گلگت بلتستان کے اندر پانچویں صدی سے لیکر تقریباً دسویں صدی تک اور ایک دوسرے اندازے کے مطابق تیرھویں چودھویں صدی تک بدھ مت کا دور تھا اور چترال کا علاقہ بھی تاریخی طور پر اس سے متاثر تھا اور اس میں شامل رہا تھا۔

چناچہ 730 عیسوی کے دوران چینی سیاح “ہوانگ تسانگ” بدخشان کے مشرق کی طرف واقع علاقے کو چینی تلفظ میں شینگ-می بتاتا ہے (محققین اسے پائین چترال قرار دے چکے ہیں)۔ لکھتا ہے کہ وہاں کا حکمران سکیہ مونی یعنی بدھا کی کھشتریہ نسل سے ہے۔ حکمران بدھ مت پر عمل کرتا ہے، اس کی ترویج کرتا ہے اور اسکی رعایا اسکی تقلید کرتی ہے۔ یہاں پر بدھ مت کی دو خانقاہیں موجود ہیں جن میں مختصر تعداد میں بدھ بھکشو رہے ہیں۔” لوئر چترال میں افغانستان سے متصل ارندو میں بھی ‘ٹوپی’ نامی باشندوں کا ذکر غالباً “گیٹ آف پرستان” میں ملتا ہے۔ چنانچہ چترال کے قدیم باشندوں کے ذکر میں علاوہ دیگر کے ‘ٹوپی’ نامی باشندوں کا ذکر شاہ حسین گہتوی کی کتاب میں بھی ملتا ہے۔ لگتا ہے کہ زمانہ قدیم میں بدھ بھکشوں کو سٹوپے کے حوالے سے شناختی طور پر ” ٹوپی” کہا جاتا تھا۔

نہ جانے یہ کس زبان کا لفظ ہے کہ بدھ مت کے سٹوپوں کو چترال اور گلگت بلتستان میں مقامی طور پر “ٹوپی” یا ” ٹوپے” کہا جاتا ہے۔ خود انگریزی زبان میں اسے سٹوپہ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ غلام محمد اور الگیرنون ڈیورنڈ بھی اسے ٹوپی یا ٹوپے کا نام دیتے ہیں۔

سٹوپہ کو سنسکرت کا لفظ بتایا جاتا ہے اور اسکے معنی کسی چیز کا “ڈھیر” ہے جسے کھوار میں “رش” کہا جاسکتا ہے۔ یہ رسم بہت قدیم زمانے میں موجود تھی جس کے تحت کسی مقدس شخص اور اسکی تبرک باقیات کو زمین کی کسی اونچی سطح پر دفنایا جاتا تھا جو ارد گرد سے نمایاں ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ رسم بعد کے پتھر کے زمانے (2000 ق م) سے مروج تھا لیکن بدھا کی وفات کے بعد انکے پیروکاروں نے اس پرانے رواج کو باقاعدہ ‘چیتیہ’ اور ‘سٹوپہ’ کی شکل دیدی۔ کہتے ہیں ایک بڑا مستطیل ہال کمرہ بنایا جاتا تھا جو ایک طرح اسمبلی ہال ہوتا تھا جس میں عبادات کی جاتیں اور اسے چیتیہ کہا جاتا تھا۔ اسکے بیچ میں ایک مینار نما سٹوپہ بنایا جاتا تھا جس کے اندر مذہبی تبرکات رکھی جاتی تھیں۔

چنانچہ ہمیں جو چٹانی تصویریں ملتی ہیں وہ اس مستطیل چیتیہ اور مینار نما سٹوپے کا یکجا ایک محض خاکہ ہوتا ہے جنہیں بدھ بکھشو اپنے اپنے حکمرانوں کے احکامات کے تحت خود اپنے علاقے اور ارد گرد کے علاقوں میں مذہب کی تشہیر کے تحت پھیلاتے رہتے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *