شندور تنازعے سے متعلق تاریخی دستاویزات
تحریر: ذاکر اللہ
تعارف
شندور دنیا کے بلند ترین پولوگراونڈ کے طور پر مشہور ہے جہاں ہر سال چترال اور گلگت کی ٹیموں کے درمیان پولو کا میچ کھیلا جاتا ہے۔ اس میچ کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ہر سال یہاں پر جشن کا سماں ہوتا ہے تو دوسری طرف دونوں فریقین یعنی چترال اور گلگت کے ملکیت کے دعوے کی وجہ سے بحث بھی چھڑتی ہے۔
اگرچہ اس تنازعے کے اوپر کافی کچھ لکھا گیا ہے اور دونوں اطراف سے اپنے اپنے دعوے درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن دونوں طرف سے کافی حد تک شندور کے تاریخی پس منظر کو چھپانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اس مضمون میں ہم شندور کی ملکیت کے حوالے سے کوئی رائے قائم کیے بغیر چند بنیادی تاریخی ماخذات کے حوالے پیش کریں گے تاکہ اس مسئلے کو تاریخی تناظر میں سمجھنے میں آسانی ہو۔
تاریخی پس منظر
روایت ہے کہ ریاست چترال اپنی تاریخ کے زیادہ تر اوقات میں دو حصوں پر منقسم تھی۔ یعنی کہ بالائی اور زیریں چترال۔ یہ تقسیم کٹور وقت میں رائج العمل تھی۔ چترال کے بالائی حصے یعنی مستوج لاسپور اور شندور کے اس پار کے علاقے یعنی پھنڈر ، غذر اور یاسین پر خوشوقت خاندان کی حکومت تھی جبکہ زیرین چترال پر کٹور خاندان حکمرامی کرتا تھا۔ کٹور اور خوشوقت دونوں دراصل ایک ہی جد کی اولاد میں سے ہیں۔ سنہ 1880ء میں یاسین کا حکمران پہلوان بہادر خان، پونیال پر حملہ کرتا ہے جو کہ اس وقت کشمیر کا حصہ تھا۔اس حملے کی وجہ سے یاسین کے بہادر خان کا آمنا سامنا امان الملک سے ہوجاتا ہے جو کہ لوئر چترال کا کٹور حکمران تھا مگر امان الملک کا کشمیر کی طرف داری کرکے بہادر خان کے خلاف کھڑے ہونے کی وجہ کشمیر-چترال معاہدہ تھا جو کہ 1878ء میں طے پایا تھا۔
اس معاہدے کے مطابق مہترانِ چترال والئیِ کشمیر کے دشمنوں کو اپنے دشمن اور مہاراجہ کے خیر خواہوں کو اپنے دوست ماننے پر پابند تھے۔ اس جھگڑے کے نتیجے میں امان الملک کو کامیابی مل جاتی ہے۔ اور خوشوقت کے علاقوں میں اس کا اثر رسوخ بڑھ جاتا ہے۔ کٹور اور خوشوقتوں کی عداوت کافی پرانی تھی کیونکہ وہ ایک ہی خطے کےحریف حکمران تھے اس لئے مختلف علاقوں کی ملکیت پر ان کا آمنا سامنا ہوتا رہتا تھا۔ اس سے پہلے 1854ء میں بھی بالائی چترال کے حکمران گوہر امان نے پونیال پر حملہ کیا تو کشمیر کے مہاراجہ نے کٹور حکمران کا سہارہ لیا تھا۔ اس وقت شاہ افضل زیرین چترال کا حکمران تھا۔ انہوں نے مستوج پر حملہ کر کے مستوج کا علاقہ اپنے قبضے میں لیا تھا۔ بعد میں گوہر امان نے یہ علاقہ واپس لیا تھا۔ یوں خوشوقت اور کٹور کے درمیان تنازعات کی وجہ سے کشمیر کے مہاراجہ اور کٹور حکمرانوں کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے گئے۔ کیونکہ خوشوقت حکمرانوں سے کشمیر کے ڈوگروں کو بھی خطرہ ہوتا تھا۔
سنہ 1895ء تک اپر اور لوئر چترال دونوں میں کٹور خاندان کا اثر رسوخ اور حکمرانی کامیابی سے چلتی رہی۔ لیکن 1895 کے محاصرہ چترال کے بعد چترال پر برطانوی حکومت اپنے پاؤں جمانے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور محاصرہ چترال کے بعد چترال کی تقسیم کچھ اس طرح سے کی جاتی ہے کہ ریاست چترال کے کٹور حکمران شندور کے اس پار کے علاقے پھنڈر، غذر اور یاسین ہمیشہ کے لئے کھو دیتے ہیں اور بعد میں شندور بھی متنازعہ بن کے رہ جاتا ہے۔ برطانوی حکومت محاصرہ چترال کے دوران اور بعد میں چترال کے ساتھ بھی “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی اختیار کرتی ہے۔ یعنی خوشوقت اور کٹور کے آپس میں لڑائی جھگڑوں کا فائدہ اٹھا کر خوشوقت کے علاقوں کو ہمیشہ سے “خوشوقت ریاست” کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ کٹور اور خوشوقت دونوں ایک ہی سکھے کے دو رخ تھے۔
اس کے علاوہ 1895 کے محاصرہ چترال کے دوران جب چترال پر شیر افضل اور عمرہ خان نے چڑھائی کی تو اس وقت خوشوقت کے لوگوں نے کٹور حکمران کے خلاف شیر افضل کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور محاصرہ چترال کے بعد بھی خوشوقت کے لوگ کسی کٹور حکمران کو اپنا حکمران ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اسی چیز کا فائدہ اٹھا کر برطانوی افسروں نے چترال کو تقسیم کرکے خوشوقت کے علاقے گلگت ایجنسی کے حوالے کر دیے۔ اگر خوشوقت اور کٹور آپس میں اتفاق سے حکمرانی کرتے تو شاید چترال کو اپنے علاقے کھونے نہ پڑتے۔
تنازعہ کی ابتداء اور دستاویزات میں ذکر
محاصرہ چترال میں انگریزوں کے جیت کے بعد 2 ستمبر 1895ء کو چترال کے شاہی قلعے میں ایک دربار منعقد کیا جاتا ہے جس میں کمسِن شجاع الملک کو انگریزوں کی طرف سے چترال کا مہتر بنایا گیا۔ تین مشیر مقامی انتظامی امور کے لیے مقرر کیے گئے۔
شجاع الملک اپنی تخت نشینی کے وقت صرف پندرہ سال کا لڑکا تھا اور انگریز آفیسر آپس میں اسے مذاق مذاق میں (شوگر ملک) کہتے تھے۔ ایک کم عمر مہتر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانوی راج نے اپنی پالیسیوں اور مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے چترال کے علاقوں کو انتظامی مقاصد کے لئے مختلف حصوں میں تقسیم کیا۔ لوئر چترال شجاع الملک کو دیا گیا۔ مستوج اور لاسپور کے علاقوں میں گورنر تعینات کیے گئے۔ شندور کے اس پار علاقوں یعنی پھنڈر، غذر اور یاسین تک بھی گورنر تعینات کرکے انہیں گلگت ایجنسی کے کنٹرول میں دیے گئے۔
سنہ 1914 تک یہ تقسیم برقرار رہی۔ 1914 میں لاسپور اور مستوج کے علاقوں کو مہتر شجاع کی درخواست پر دوبارہ چترال کو منتقل کیا گیا لیکن شندور کے پار علاقے پھنڈر ، غذر اور یاسین ہزار کوششوں کے باوجود مہتر چترال کو نہیں دیے گئے۔ چترال کے حکمرانوں کی طرف سے ان علاقوں کی واپسی کیلئے وقتاً فوقتاً درخواست گزاری کی جاتی رہی لیکن کہیں پر بھی سنوائی نہیں ہوئی۔درخواست گزاری کا یہ سلسلہ 1914 سے 1947 تک جاری رہا۔ سال 1910 سے لے کر آگے دو دہائیوں تک پھنڈر، غذر اور یاسین کے علاقوں کے حوالے سے چترال کے حکمران اور برطانوی افسروں کے درمیان خط و کتابت ہوتی رہی۔ اس کے بعد شندور کا مسئلہ زور پکڑتا گیا۔
سنہ 1933ء میں ایک یادداشت کی کاپی گلگت کے پولیٹیکل ایجنٹ کی طرف سے پولیٹیکل ایجنٹ مالاکنڈ کو بھیج دی جاتی ہے۔ یہ یادداشت شندور کے تنازعے کے بارے میں تھی۔ اس یادداشت کے مطابق گلگت کی طرف سے شندور کے مسئلے کے اوپر اعتراضات اور سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ چترال کے مہتر نے گلگت کے حدود کے اندر پولوگراونڈ اور تعمیرات بنائے ہیں۔ گلگت کے پولیٹیکل ایجنٹ لکھتے ہیں کہ پولوگراونڈ میں مکان کی مرمت کا کام لاسپور کے لوگ مہتر کے کہنے پر کرتے ہیں اور مہتر چترال کا بیٹا ابھی حال ہی میں موسم بہار کے دنوں وہاں ٹھہرا تھا۔ مزید یہ کہ گلگت کے سنگ میل ٹی-14 اور ٹی-15 کو گاؤں ٹیرو سے ہٹا کر ان کی جگہ ایل اور ایم سنگِ میل کھڑا کیا گیا ہے جن کا مطلب لواری اور مستوج بن جاتا ہے جو چترال کے علاقے ہیں۔
اس واقعے کے بعد 24 اکتوبر 1933 کو پولیٹیکل ایجنٹ مالاکنڈ کی طرف سے مہتر چترال کو ایک خط لکھا گیا جس میں مہتر چترال کو مخاطب کرکے پولیٹیکل ایجنٹ مالاکنڈ لکھتے ہیں کہ “چترال میں میرے قیام کے دوران میں نے آپ کو گلگت کی طرف سے کی گئی شکایات سے آگاہ کیا تھا۔ اس میں سے سب سے اہم مسئلہ ڈاک بنگلے کا تھا جو کہ کیپٹن کاپ کے زمانے میں گلگت کے حدود میں بنایا گیا تھا۔ 1928 میں اس جگہیں کا معائنہ سکاؤٹس کے تین بندوں نے کیا جن میں سے دو چترال سے جبکہ ایک گلگت گلگت سے تھا اور 1929 میں دوبارہ سروے افسر کے ذریعے بھی اس جگہیں کا معائنہ کیا گیا تھا۔ دونوں ٹیم اس بات پر متفق تھے کہ حقیقی واٹر شیڈ جھیل کے مغربی جانب واقع ہے۔ اسی لئے مستقبل میں اسی واٹر شیڈ کو ریاست کی حد تصور کریں گے اور مہتر چترال اپنے کسی بیٹے یا عہدیدار کو اسے عبور کرنے نہیں دیں گے۔ ہاں البتہ پولیٹیکل ایجنٹ گلگت کی رضامندی ہو تو اس علاقے میں جا سکتا ہے۔ اس سے ہرچین اور لاسپور کے علاقوں اور دوسرے گاؤں کی چرائی اور لکڑی کاٹنے کے حقوق پر کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔ باقی ڈاک بنگلہ کا مسئلہ گلگت کے اوپر چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ پھر اسے سلامت رکھیں پا پھر گرا دیں۔”
اس خط کا سادہ مطلب یہ تھا کہ شندور جھیل کے مغربی طرف کا واٹر شیڈ ریاست چترال کی آخری حد ہے۔ اس سے آگے چترال کا مہتر یا کوئی حکام نہیں جاسکتا۔ ہاں البتہ گلگت کے حدود میں لاسپور کے لوگوں کو مال مویشیاں چرانے اور لکڑی کاٹنے کا حق حاصل برقرار رکھا گیا۔ اکتوبر 24 کو ایک اور خط رابرٹ ہئے نامی پولیٹیکل ایجنٹ مالاکنڈ، صوبہ سرحد کے چیف سکریٹری کو بھیجتے ہیں۔ اس خط میں بھی مذکورہ بالا تمام باتیں دہرائی گئی تھیں اور شندور جھیل کی مغربی طرف کے واٹر شیڈ کو ریاست چترال کی آخری حد قرار دی گئی۔ اسی طرح 29 اکتوبر 1933 کو مہتر چترال شجاع الملک، ملاکنڈ کے پولیٹیکل ایجنٹ میجر ڈبلیو آر کو شندور کے حوالے سے ایک مفصل خط لکھتے ہیں جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
“سنہ 1914ء میں مستوج اور لاسپور کو واپس چترال منتقل کرنے کے دوران مہتر چترال اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ چترال اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ گلگت کے ساتھ شندور ٹاپ کے مقام پر ایک ہفتے کے لیے کیمپ لگا کر ٹھہرے تھے۔ اس وقت سرکاری طور پر باؤنڈری کا تعین کیا گیا تھا جو کہ اب تک یعنی 1933 تک ٹھیک چلا آرہا تھا اور دوبارہ 1916 میں بھی جرنل سمتھ اور میجر ریلی دوبارہ باؤنڈری لائن کے اوپر بات کرتے ہوئے انہوں نے بھی پہلے والے حدود کو فائنل حدود قرار دیا تھا۔ اس طرح مسٹر ووڈ بولارڈ نے بھی اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ چترال کے ساتھ 1928ء میں شندور ٹاپ کے مقام پر مل کر ایک بار پھر اس حدود کی تصدیق کی تھی۔ مہتر چترال کا دعویٰ تھا کہ “میرا بیٹا جب گورنر آف مستوج تھا تو ہمیشہ اسی جگہ کی سیر کرتا تھا۔ اس وقت کسی نے نہ کوئی اعتراض کیا نہ کسی کی طرف سے کوئی سوال اٹھا۔حالانکہ اس وقت مستوج کی منتقلی بھی نہیں ہوئی تھی۔ مزید یہ کہ 1895ء سے لاسپور کا حاکم ہی پورے شندور ٹاپ کا انچارج رہ چکا تھا اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ شندور چترال کا حصہ ہے۔ ڈاک بنگلہ کے حوالے سے مہتر کا لکھنا تھا کہ انہوں نے کافی عرصہ پہلے بذات خود اس کو اپنے نام پر تعمیر کیا تھا۔ اب تک اس کے اوپر کوئی مسئلہ نہیں ہوا لیکن اسی سال اس ڈاک بنگلہ کو گلگت ایجنسی کو سونپنے کا سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ حالانکہ مہتر کا کہنا تھا کہ یہ علاقہ جہاں پر ڈاک بنگلہ واقع ہے مجھے سیاسی حکام نے دیے تھے اور ہارچین اور لاسپور کے لوگ اکثر گرمیوں میں اس جگہ منتقل ہوتے ہیں۔
اسی طرح 6 نومبر 1933 کو پولیٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ کی طرف صوبہ سرحد کے چیف سکریٹری کو ایک خط بھیجا جاتا ہے۔ یہ خط بھی شندور کے مسئلے کے اوپر تھا۔ اس خط میں صرف اتنا لکھا گیا تھا کہ شندور جھیل کے دو واٹر شیڈز ہیں۔ ایک مغرب کی طرف اور دوسرا مشرق کی طرف اور مہتر کا ڈاک بنگلہ جھیل کے نزدیک دونوں واٹر شیڈ کے درمیان تھا۔
مختصراً یہ کہ شندور کے اوپر مہتر چترال کا دعویٰ تھا کہ شندور ٹاپ کا پورا علاقہ چترال کا ہے۔ جبکہ برطانوی آفیسرز اس بات پر بضد تھے کہ شندور جھیل کا مغربی واٹر شیڈز چترال کے لئے آخری حدود کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس بات کو بھی برطانوی آفیسر مانتے تھے کہ شندور کے مقام پر گلگت کی حدود میں لاسپور کے لوگوں کو مال مویشیوں چرانے کے لیے چراگاہیں اور لکڑیاں کاٹنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
لیکن پاکستان کی آزادی کے ساتھ ہی پھنڈر اور غذر پر حقِ ملکیت کا دعویٰ کرکے مہتر چترال کی طرف سے قائداعظم محمد علی جناح کو خط لکھا گیا جس میں مہتر چترال نے جناح سے درخواست کی کہ شندور کے دوسرے اطراف ہمارے علاقے زبردستی ہم سے چھین کر گلگت کے حوالے کئے گئے ہیں لہذا ان علاقوں کی واپسی کے لئے ہماری درخواست پر عمل کیا جائے۔ اس درخواست پر بھی کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔
چترال کے حکمران 1910ء سے لے کر اگلے دو دہائیوں تک پھنڈر، غذر اور یاسین تک کے علاقوں کی واپسی کےلئے بھر پور جدوجہد کر رہے تھے۔ 1930 کے بعد سے ان کی ساری توجہ ان علاقوں کو چھوڑ کر صرف شندور پر مرکوز ہوگئی۔ مگر شندور کا تنازعہ تقسیم آزادی کے بعد بھی حل نہیں ہوا اور اب تک اس کا کوئی ایسا حل تجویز نہیں ہوا ہے جو دونوں فریقین کو منظور ہو نا ہی دونوں فریقین اس کی تاریخی ملکیت پر متفق ہیں۔ ہم نے اس مضمون میں کچھ بنیادی دستاویزات کے حوالے دیے ہیں۔ امید ہے کہ ان دستاویزات کی روشنی میں اس مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
حوالہ جات
- A collection of treaties engagement and Sanads
- Gazetteer of Eastern Hindukush 1888, Captain E.G.Barrow
- Military Report and Gazetteer on Chitral 1928
- An official Account of the Chitral expedition 1895, Robertson
- Memorandum By Political Agent Gilgit. National archive peshawer
- Letter from Political Agent Malaknd to Ruler of Chitral
- Letter from Political Agent Malaknd to the Chief Secretary of the Government of N.W.F.P.
- Letter from the ruler of Chitral to political agent Malaknd
- Letter from ruler of Chitral to Jinnah
Posted on 25 March 2024