جنوبی چترال میں اسلام کی آمد کی اصل تاریخ: کلکٹک گاؤں کے تناظر میں

0
KALKATAK, ISLAM IN CHITRAL

کلکٹک کی مسجد، تصویر کا ذریعہ: مصنف

تحریر: فخر الدین اخونزادہ

جنوبی چترال کے گاؤں کلکٹک میں ایک مقبرہ ہے۔ یہ مقبرہ “شہیدو زیارت” (شہید کا مقبرہ) کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مقبرہ اس گاؤں میں ماضی میں رونما ہونے والے واقعات کی کہانی بتاتا ہے۔ کچا ہونے اور  دیکھ بھال نہ ہونے کے باوجود سینکڑوں سال پرانا یہ مقبرہ اب بھی قابل شناخت ہے۔ اس گاؤں کی ایک روایت کے مطابق اس مقبرے میں دفن شخص اور اس کا ایک دوسرا ساتھی اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں یہاں آئے تھے۔ رات کو  یہ دونوں سو رہے تھے تو اس گاؤں کے لوگوں نے، جو کہ اس زمانے میں کالاشہ تھے،  ان پر حملہ کرکے اس قبر میں مدفون شخص کو قتل کیا جبکہ دوسرا بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا۔ گاؤں کی اس کہانی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یہ دونوں شخص  اخون بابا کے مرید تھے اور دیر سے یہاں آئے تھے۔ 

A Villager from Kalkatak, Image by the Author

اس گاؤں کے ایک دوسری کہانی یہ ہے کہ جب کٹور خاندان کا پہلا حکمران  کٹور اؤل  یہاں سے گزر رہا تھا تو  یہاں کے باشندوں نے جو کہ اس زمانے میں کالاشہ تھے اس کو قتل کیا۔ کہانی سنانے والا شخص گاؤں کے اس حصے کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں اس کا قتل ہوا تھا۔ پھر بعد کے کٹور حکمرانوں کا اس قتل کا بدلہ لینے لیے اس گاؤں کے لوگوں کے قتل عام کرنے کا  قصہ بھی اس گاؤں کے کہانیوں میں شامل ہے۔  

سن 1990 کے شروع میں یہاں کی پرانی مسجد کو گرا کر نئی مسجد بنائی گئی۔ اس وقت یہاں کے عمر رسیدہ لوگ اس پرانی مسجد کے بارے میں بتا رہے تھے کہ یہ مسجد ان کے بچپن میں تعمیر ہوئی تھی۔ وہ یہ بھی بتارہے تھے کہ اس مسجد سے پہلے اس سے بھی ایک چھوٹی مسجد تھی اور وہ مسجد اس گاؤں میں سب سے پہلے تعمیر ہونے والی مسجد تھی۔ ان کے آباواجداد کے مطابق اس سے پہلے یہاں کوئی مسجد نہیں تھی۔ ان عمر رسیدہ لوگوں  کے مطابق ان کے پچپن میں اس گاؤں میں کوئی فوتگی ہوتی تھی تو  پہلے اس گھر میں بکریوں کو  ذبح کرکے  کھانا پکایا جاتا تھا۔ لوگ کھانا کھانے کے بعد مردے کو دفناتے تھے۔بعض اوقات مال مویشی غاری (گرمائی چرا گاہ) میں ہونے کی وجہ سے  انتظار بھی کرنا پڑتا تھا کیوں کہ چراگاہ سے جانور گاؤں پہنچانے میں وقت لگتا تھا۔

تاریخ کی کتابوں میں دیر کے اخون سالک کا بہت عام ذکر ہے۔ کلکٹک کی کہانی میں جس اخون بابا کا ذکر ہے قوی امکان ہے کہ یہ وہی اخون سالک ہو یا اس کے بعد آنے  والا اس کا کوئی جا نشین ہو (کیونکہ اخون ایک لقب ہے اور اخون سالک کے ایک اور ساتھی کا نام  اخون سباک ہے)۔ اخون سالک ایک مشہور مبلغ تھا۔ دیر، سوات اور اس پاس کے علاقوں میں اس نے اسلام پھیلایا۔ اس سے  پہلے ان علاقوں کے لوگ بھی بدھ مت یا کالاشہ مذہب کے پیروکار تھے اور وہ یہاں کے بومکی یعنی اؤلین باشندے تھے۔ ہوسکتا ہے اخون سالک اپنے مریدوں کو تبلیغ کے سلسلے میں ادھر بھیجا ہو۔

تاریخ چترال کی کتابوں میں شاہ کٹور (اول) کے کلکٹک میں قتل کا ذکر ہے اور یہ بھی ذکر ہے کہ اس کا  بیٹا سنگین علی ایک دفعہ دروش آیا تو اسے بتایا گیا کہ اس کے والد کو کلکٹک کے والوں نے قتل کیا تھا۔   اس نے اپنے والد کا بدلہ لینے کے لیے اس گاؤں کے لوگوں کو قتل کرنے کا حکم صادر کیا  اور یہاں کے  ذیادہ تر  لوگوں کو قتل کیاگیا۔ کچھ کو  گرفتار کرکے مسلمان بنایا گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان کو واپس گاؤں میں آنے دیا گیا یا ان کو غلام بنایا گیا۔ اس دور میں غلام (خناذت) بنائے جانے کا رواج عام تھا۔ کلکٹک کی کہانی میں یہ ذکر ہے کہ یہاں پر حملہ رات کو ہوا اور رات کی تاریکی میں زیادہ تر لوگ  جنگل کی طرف بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ حالت ٹھیک ہونے پر وہ لوگ گاؤں واپس آگئے۔

   تایخ کی کتابوں میں اخون سالک کا دور سترہ ویں صدی پہلا نصف بتایا گیا ہے۔ اس کا انتقال ۱۶۴۶ میں ہوا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اخون سالک یا اس کے کسی جانشین کے دور (سترہ ویں صدی) تک یہاں اسلام نہیں آیا تھا اور اس دور کے مبلغین یہاں کے لوگوں کو مسلمان بنانے میں ناکام ہوئے تھے۔ اس طرح سنگین علی کٹور خاندان کا دوسرا حکمران تھا۔ حالیہ تحقیق  کے مطابق وہ سترہ صدی کے آخری نصف میں چترال کا حکمران رہا ہے۔ کچھ ماخذات کے مطابق سنگین علی کا دور اس سے بھی بعد کا ہے۔ اس کی حکمرانی اٹھاریں صدی کے وسط سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سنگین علی کے دور تک یعنی کہ آج سے تین سو سال پہلے تک یہاں کے لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ تاریخ کی تمام کتابوں میں اس گاؤں کے باشندوں کو کالاشہ لکھا  گیا ہے۔  

 کلکٹک میں جس مسجد کو گرا کر نئی مسجد بنائی گئی تھی وہ کچی تھی۔ مٹی سے بنی ہوئی عمارت کی زیادہ سے زیادہ عمر پچاس سال ہے۔ اس مسجد سے پہلے مسجد کی بھی یہی عمر ہوگی۔ نوے کی دہائی تک اس گاؤں میں صرف دو مساجد یکے بعد دیگرے اپنی عمریں گزاری ہیں۔ ملا کر دونوں کی عمر سو سال   کے لگ بھگ ہوگی۔ یعنی اس گاؤں میں پہلی مسجد  انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں بنی۔ اس گاؤں کے جو لوگ فوتگی میں مردے کو دفنانے سے پہلے مویشیوں کو ذبح کرکے کھانے کی جو باتیں کررہے ہیں وہ اپنی عمر کے اسی کی دہائی میں ہیں یعنی کہ اسی سال پہلے تک اس گاؤں میں موجودہ بمبوریت یعنی کلاشوں والی فوتگی کا  نظام رائج تھا۔ اگرچہ لوگ اپنے پرانے مذہب کی کچھ چیزوں کو نئے مذہب میں لاتے ہیں لیکن کچھ بنیادی چیزوں کو شروع سے ہی ترک کرتے ہیں۔ خاص کر ان چیزوں کو  جن سے ان کی پرانی  مذہب کی شناخت ہو۔ اسلام میں مُردوں کو دفنانے کا اپنا مختلف طریقہ ہے۔ کلکٹک کے لوگوں کا بیسویں صدی کے آغاز میں بھی کفن دفن کے اسلامی طریقے پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اُس دور میں مسلمان ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزر چکا تھا۔

میری اپنی ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ کے مطابق میں صرف 12 فیصد بومکی ہوں۔ میری دادی  کلکٹک کے مشہور بومکی خاندان تمبورے کی نسل سے تھی جو کالاشہ نسل ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں بمبوریت کے کچھ مشہور کالاشہ لوگوں کو میرا تیسرا یا پانچواں کزن دیکھایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چھٹی پشت پیچھے جاکر ہمارا دادا یا دادی ایک تھی۔ یہ دادا یا دادی یقیناً کالاشہ ہوگی۔ اگر یہ مسلمان تھی تو یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی نسل میں سے کچھ لوگ کالاشہ ہوں۔ میری دادی کا خاندان  اس کے بعد کسی وقت مسلمان ہوا ہوگا۔  اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس گاؤں کے لوگ مجھ سے چھ پشت پیچھے کالاشہ تھے۔ میرا خاندان دو پشت اور آگے بڑھا ہے۔ آج میرے بھانجوں کے بھی بچے ہیں یعنی کہ اب تک اس مشترکہ دادا یا دادی سے ہم  آٹھ پشت پیدا ہوئے ہیں۔ آٹھ پشتوں کا دورانیہ، فی پشت بیس سال کے حساب سے  ایک سو  ساٹھ سال بنتا ہے۔ اس سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اس گاؤں میں ایک سو ساٹھ سال پہلے یعنی کہ انیسویں صدی کے دوسرے نصف تک کالاشہ مذہب کے لوگ تھے۔   

Kalkatak Village Near Drosh in Lower Chitral, Image by the Author

ان تمام واقعات، روایات، لٹریچر اور سائنسی تحقیق سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس گاؤں میں اسلام کی آمد انیسویں صدی کے آخر تک مکمل ہوئی یعنی کہ صرف دو سو سال پہلے۔ اٹھارویں صدی کے آخر تک اس گاؤں میں کسی کے مسلمان ہونے کے شواہد نہیں ملتے۔ جبکہ انیسویں صدی کے آخر تک کالاشہ لوگوں کی  موجودگی ظاہر ہوتی ہے۔

   یہ گاؤں جنوبی یعنی لوئر چترال میں مرکزی وادی میں واقع ہے اور چترال کے لیے جنوب کی طرف سے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ روایات کے مطابق بھی سنی مسلک جنوبی چترال کے کالاشہ علاقوں میں جنوب کی طرف  سے داخل ہوا ہے۔ البتہ شمالی چترال میں اسلام وسط ایشیا اور بدخشان سے آیا تھا۔ وہ یہاں ہمارا موضوعِ سخن نہیں ہے۔ چترال کے شروع میں ہونے کی وجہ سے کلکٹک ان ابتدائی دیہات میں سے ایک ہوسکتا ہے جہاں اسلام پہلے آیا ہو۔ اسلام پہلے یہاں اور اس کے بعد مزید شمال کی طرف بڑھا ہوگا۔ یہ امکان کم نظر آرہا ہے کہ جنوب سے آنے والے مبلیغین اس کو چھوڑ کر آگے بڑھے ہوں اور پھر واپس آکر یہاں تبلیع کی ہوں اور باقی دیہات کے مقابلے میں اس گاؤں  کے لوگ آخر میں مسلمان ہوئے ہوں۔ اس لیے اگر کلکٹک جیسے داخلی علاقے میں اٹھارویں صدی کے آکر تک کوئی مسلمان نہیں تھا تو کیا اس تناظر میں ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ جنوبی یعنی لوئر چترال میں اسلام مکمل طور پر بہت بعد میں پھیلا ہے؟ یہ غور طلب بات ہے۔


Published on 23 August 2023

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *