مردم شماری 2023 کی تفصیلی رپورٹ اور چترال کی زبانیں
تحریر: فخرالدین اخونزادہ
پاکستان کی مردم شماری 2023 کی تفصیلی رپورٹ ادارہ شماریات کے ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں دوسری معلومات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کچھ زبانیں بولنے والوں کی تعداد بھی شامل ہے۔ اس دفعہ چترال میں بولی جانی والی دو زبانوں پشتو اور کالاشہ کو مردم شماری میں جگہ دی گئی تھی اور ساتھ ہی چترال کی ایک اور زبان ‘گورباتی’ بھی گنتی میں آئی ہے۔ مگر چترال کی سب سے بڑی زبان کھوار عدالتی حکم کے باوجود اس دفعہ بھی مردم شماری میں شامل نہیں ہوئی۔
کالاشہ لوگ اپنی منفرد ثقافتی پہچان کی وجہ سے اس دفعہ مردم شماری میں جگہ پائی ہیں۔ اس مردم شماری کی رپورٹ میں ضلع لوئر چترال میں کالاشہ قبیلے کی زبان یعنی کالاشہ بولنے والوں کی تعداد 5065 کس رپورٹ ہوئی ہے۔ اس تعداد میں سے چترال سب-ڈویژن (تحصیل چترال) میں کالاشہ بولنے والوں کی تعداد 3263 کس ہے اور دروش سب-ڈویژن (تحصیل دروش) میں رہنے والوں کی تعداد 1822 کس ہے۔ چونکہ کالاش قبیلے کی تینوں وادیاں تحصیل چترال میں واقع ہیں، لہذا چترال سب-ڈویژن میں رپورٹ ہونے والی یہ تعداد ان کالاشہ وادیوں میں رہنے والے کالاش قبیلے کی ہے)دروش میں کالاش قبیلے کے لوگ نہیں رہتے البتہ زبان موجود ہے(۔ کالاشہ زبان اور قبیلے کے لیے یہ تعداد کافی تشویش ناک ہے۔ کیونکہ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کالاش وادیوں میں کالاشہ زبان (اور مذہب) کے لوگوں کی تعداد کم ہوکر صرف 3263 رہ گئی ہے اور کالاشہ زبان و ثقافت معدومیت کے خطرے سے مزید دوچار ہوگئی ہے۔کالاشہ لوگوں کی اس تعداد کی تصدیق مردم شماری کے “مذہب” کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ مذاہب کی رپورٹ، جس میں چھوٹے مذاہب کے لیے “دیگر” کا خانہ استعمال ہوا ہے،میں بھی چترال ڈویژن میں تعداد 3509 کس رپورٹ ہوئی ہے۔ دیگر مذہب کے لوگ چترال میں صرف کالاشہ ہی ہیں۔ جبکہ مسلمان، عیسائی اور چند دیگر بڑے مذہب کے لیےعلیحدہ خانہ ہے ۔دونوں تعداد سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت کالاشہ مذہب اور زبان کے لوگ 3500 کے لگ بھگ رہ گئے ہیں۔
دروش سے اس وقت کالاشہ مذہب ختم ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود مردم شماری رپورٹ میں یہاں کالاشہ زبان بولنے والوں کی موجودگی کافی دلچسپ ہے۔ حالیہ مردم شماری میں یہاں (سب-ڈویژن دروش) سے اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد 1822 کس رپورٹ ہوئی ہے۔ یہ تعداد اُرسون وادی کے مسلم کالاشہ کی ہے۔ حالیہ چند سالوں سے اُرسون میں رہنے والے اکثر کالاشہ ماضی کے برعکس مختلف عوامل کی وجہ سے اپنی کالاشہ شناخت کو بتاتے ہوئے ہچکچاتے نہیں ہیں اور کالاشہ زبان صدی پہلے کالاشہ مذہب چھوڑنے کے بعد بھی بولتے آرہے تھے۔ کالاشہ یہاں “اُرسونی وار “کے نام سے مشہور ہے۔ ماہر لسانیات کے نزدیک بھی ارسونی وار کوئی دوسری زبان نہیں بلکہ کالاشہ ہی کی ایک بولی ہے۔ مردم شماری میں رپورٹ کی گئی یہاں یہ تعداد جوکہ 1822 ہے کم نظر آرہی ہے اور اصل تعداد ذیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ 2017 کی مردم شماری رپورٹ میں اُرسون وادی کی کل آبادی چھ ہزار سے زیادہ بتائی گئی تھی۔اس وادی سے کالاشہ بولنے والوں کی تعداد تھوڑا کم رپورٹ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اب بھی اپنی کالاشہ شناخت چھپاتے ہیں حالانکہ وہ یہ زبان بولتے ہیں۔ یہ تعدادکم ازکم کل آبادی کی نصف ہوسکتی ہے۔ باقی تعداد یہاں رہنے والے پشتون، گوجری اور کھو لوگوں کی ہے۔ یہ تمام لوگ باہر سے آئے ہیں۔ ان کی تعداد کالاشہ(بومکی لوگوں) سے زیادہ ہونا بعید از قیاس ہے۔
ایک بڑی زبان ہونے کی وجہ سے پشتو شروع سےہی مردم شماری کاحصہ رہی ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق چترال میں پشتو بولنے والے لوئر چترال میں رہتے ہیں اور ان کی تعداد 29799 ہے۔ لوئر چترال میں زیادہ تر پشتون دروش میں رہتے ہیں اور ان کی تعداد 24,660 کس ہے۔ جبکہ تحصیل چترال (چترال سب- ڈویژن) میں پشتو بولنے والوں کی تعداد 5139 ہے۔ اس تعداد میں سے تین ہزار چترال ٹاؤن میں قیام پزیر ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے اعداد کے مطابق ضلع اپر چترال میں پشتو زبان بولنے والوں کی تعداد صرف 108 رپورٹ ہوئی ہے جوکہ نہ ہونے کی برابر ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ پشتون بولنے والوں کی اکثریت لوئر چترال میں ہے۔ ان میں 80 فیصد سے زیادہ صرف دروش اور باقی چترال تحصیل میں رہتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چترال میں 2017 کی مردم شماری میں پشتو بولنے والوں کی تعداد 25000 تھی اور گزشتہ سات سالوں میں بڑھ کر29799 ہوئی ہے۔
اس رپورٹ سے اپر چترال میں کھوار بولنے والوں کی تعداد کا بھی درست تخمینہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس مردم شماری کی رپورٹ میں اپر چترال کی آبادی 195161 افراد پر مشتمل بتائی گئی ہے۔ اپر چترال میں کھوار کے علاوہ دوسرا لسانی گروہ صرف بروغل میں رہائش پذیر واخی بولنے والے ہیں جن کی تعداد محدود اور مقامی لوگوں کے مطابق 1500 ہے۔ لہذا اپر چترال کی آبادی میں سے واخی لوگوں کی محدود تعداد کو نکال کر باقی تعداد کھوار بولنے والوں کی ہے۔ لوئر چترال کی رپورٹ کی گئی آبادی جوکہ 279,298 افراد پر مشتمل ہے ،میں سے کھوار اور یہاں قیام پزیر دوسرے لسانی گروہوں کی تعداد کا تخمینہ لگانا مشکل ہے کیونکہ یہ ضلع زیادہ لسانی گروہ ہوں کا مسکن ہے۔ اس ضلع کی آبادی11 مختلف زبانیں بولتی ہے۔ چترال کے واخی گروہ کے علاوہ باقی تمام لسانی گروہ اس ضلع میں رہتے ہیں۔ماضی کی مردم شماری رپورٹ کے برعکس اس تفصیلی رپورٹ میں دیہات کی سطح تک آبادی کی تعداد درج نہیں ہےبلکہ ڈویژن سطح تک آبادی درج ہے۔ شاید آنے والوں دنوں میں مزید تفصیلی رپورٹ سامنے آئے۔ کھوار بولنے والوں کی درست تعداد معلوم کرنے کے لیےمردم شماری میں یہ زبان الگ سے شامل ہونی چاہیےلیکن اس کے باوجود چترال کی سب سے بڑی زبان ‘کھوار’ اس دفعہ بھی مردم شماری کے سروے فارم میں شامل نہیں تھی۔ اس دفعہ سروے میں بعض اُن زبانوں کو بھی جگہ دی گئی تھی جو کھوار سے نسبتاً چھوٹی ہیں جو کہ ان مقامی زبانوں کے لئے خوش آئند بات ہے۔ پچھلی تمام مردم شماریوں میں کاغذ کے فارم استعمال کیے جاتے تھے جس میں تمام زبانوں کے لئے الگ خانہ مختص ممکن نہیں تھا لیکن اس بار مردم شماری ڈیجیٹل طریقے سے ہوئی جس میں جگہ کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود کھوار جیسے لاکھوں لوگوں کی زبان کو مردم شماری میں شامل نہ کرنا حکومتی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔ حالانکہ 2017 میں شاہد یفتالی ایڈوکیٹ کی کوششوں کی وجہ سے پشاور ہائی کورٹ نے اس زبان کو مردم شماری فارم میں شامل کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن کھوار زبان کی ترقی و ترویج کے لیے کام کرنے والی نصف درجن تنظیموں نے اس عدالتی حکم پر ادارہ شماریات کے ذریعے عمل درآمد کروانے کے لیے کوئی خاص پھرتی نہیں دیکھائی۔
اس مردم شماری میں “کوہستانی” نام سے بھی ایک زبان شامل ہے۔ حالانکہ یہ نام شمالی پاکستان میں بہت سی زبانوں کے لیے متبادل نام کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ چترال میں بھی گَورباتی زبان والے اپنی زبان کے لیےیہ نام استعمال کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے چترال کی رپوٹ میں 1,418 تعداد کوہستانی بولنے والوں کی در ج ہوئی ہے۔ یہ تعدا د اصل میں پاک افغان سرحدی علاقے میں رہنے رہنے والے گَورباتی بولنے والے ہیں جن کو کھوار بولنے والے نرساتی یا ارندوئی بھی کہتے ہیں۔ اس زبان کو پشتو بولنے والے کوہستانی کہتے ہیں اور کچھ مقامی لوگ بھی یہی نام استعمال کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد دونوں ملکوں میں 12ہزار ہے اور ارندو کے مقامی لوگوں کے گنتی کے مطابق پاکستان میں اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد چار ہزار ہے۔ لہذا مردم شماری رپورٹ میں درج شدہ تعداد کم ہے۔ غالباًکچھ لوگ نے اپنی زبان کا نام ‘گورباتی’ بتایا ہوگا جس کا ‘کوہستانی’ کے خانے میں اندراج نہیں کیا گیا ہو۔
مردم شماری رپورٹ سے کالاشہ وادیوں میں بولی جانی والی کالاشہ زبان مزید خطرے سے دوچار نظر آرہی ہے۔ جب کہ اس زبان کی ایک بولی’اسورنی وار’ بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی ارسون وادی میں موجود ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق چترال میں پشتو زبان بولنے کی تعداد مزید بڑھ گئی ہے اور پشتو بولنے والوں کی زیادہ تعداد تحصیل دروش میں مقیم ہے۔ اس رپورٹ میں صرف اپر چترال میں کھوار بولنے والوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جبکہ کھوار کے لیے الگ خانہ نہ ہونے کی وجہ سے چترال کی سب سے بڑی زبان بولنے والوں کی تعداد اس دفعہ بھی معلوم نہیں ہوسکی۔ یوں اس بار پاکستان میں کئی ایک چھوٹی زبانیں مردم شماری کا حصہ بنیں مگر لاکھوں چترالیوں کی زبان کو مردم شماری سے باہر رکھا گیا۔
Uploaded on 15 August 2024