markhor in chitral

Markhor in Chitral

گمنام کوہستانی
گاؤری سمیت زیادہ تر داردی زبانوں میں مارخور کو شرہ، شرا یا شو کہتے ہیں۔ قدیم داردی مذاہب میں یہ جانور مقدس سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ شرہ بلند پہاڑی چوٹیوں اور جھیلوں میں آباد پریوں، دیوؤں کا پالتو جانور ہے۔ اس لئے شکار کے کچھ قواعد و ضوابط تھے جن پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا۔ شکاری  شکار پر جانے سے پہلے مخصوص عبادت کرکے پریوں، دیوؤں سے اجازت لیتا۔ اس دوران وہ کچھ کاموں سے دور رہتا جیسا کہ بیوی سے ملنا، کسی ناپاک چیز یا جگہ پر قدم رکھنا وغیرہ۔ دوران شکار کسی ایسے مارخور کو نشانہ بنانا جو ممنوع تھا یا ضرورت سے زیادہ شکار پر پریاں دیوؤں وغیرہ سزائیں دیتے تھے۔ یہ مانا جاتا تھا کہ جو شکاری ان پریوں کے احکامات پر عمل کرتے ہیں وہ ان مہربان پریوں کے پناہ میں ہوتے ہیں۔ انہیں شکار بھی آسانی سے ملتا اور پہاڑوں میں دیوؤں، جنات کے شر سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ جو لوگ خلاف ورزی کرتے ہیں پریاں ان سے ناراض ہوجاتی ہیں اور ان پر دیوؤں مسلط کرکے انہیں پہاڑوں میں مار دیتی ہیں۔ اس وقت کے لوگ جیسے بھی تھے لیکن اپنے عقائد کے پکے تھے پریوں دیوؤں سے بہت ڈرتے تھے اور پہاڑوں میں تو وہ وہ کلی طور پر پریوں کے رحم و کرم پر ہوتے تھے تو خلاف ورزی کی نوبت شائد بہت ہی کم آتی ہوگی۔
شکار بھی مخصوص وقت اور مخصوص ضرورت کے لئے کیا جاتا تھا۔ عام طور پر موسم خزاں سے لے کر بہار تک شکار کیا جاتا تھا جس میں لوگ اپنی ضرورت کے مطابق شکار کرتے تھے۔ شکار دو ہی مقاصد کے لئے کیا جاتا بھوک مٹانے یا پریوں، دیوؤں کو قربانی دینے کے لئے۔ مقامی لوگ انفرادی یا اجتماعی طور پر شکار کرکے انہیں طویل سردیوں کے لئے محفوظ کرتے تھے۔ اسی طرح پریوں دیوؤں کے حضور بہترین قربانی مارخور کی سمجھی جاتی تھی۔ مقامی لوگ پریوں دیوؤں کے نام پر مارخور ذبح کرکے انہیں خوش کرتے اور مرادیں مانگتے۔ قربانی کے بعد مارخور کے سینگ عبادت گاہ میں کسی بلند جگہ پر یا قربانی کرنے والے کے چھت پر رکھے جاتے تھے۔
ظہور اسلام کے بعد قدیم عقائد باطل قرار دیئے گئے یوں مارخور اپنا تقدس کھو بیٹھا اور کسی قاعدے قانون کے بغیر شکار شروع ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب بالائی پنجکوڑہ کے پہاڑوں میں شرہ، کیل ( آئی بیکس) اور روموش ( رونز) جیسے نایاب جانوروں کے بڑے بڑے ریوڑ ہوا کرتے تھے۔ بزرگوں کے بقول بعض اوقات چراگاہوں میں نر شرہ بکریوں سے ملتا جس سے اعلیٰ نسل کے بچے پیدا ہوتے جو کافی مہنگے سمجھے جاتے تھے۔ مقامی لوگ تیروں اؤر نیزوں سے ان کا شکار کرتے یوں اتنا نقصان نہیں ہوتا تھا۔ بندوق کے آنے تک شکار اور شکاری دونوں کا پلہ برابر رہا۔ لیکن بندوق کے آنے کے بعد شکار کھیل بن گیا یوں کچھ ہی وقت میں ہزار ہاں جانور شوق، تجارت کے لئے مارے گئے۔ روموش کی ناف میں موجود مشک، اور شرہ، کیل کے سینگ قیمتی ہوگئے. پشاور، کابل اور لاہور کے تاجر لوگ مقامی شکاریوں سے معمولی قیمت پر یہ گراں قدر چیزیں خریدتے اور پھر آگے مہنگے داموں فروخت کرتے تھے۔
آہستہ آہستہ ان جانوروں کی تعداد کم ہوتی گئی آج گنتی کے چند شرہ رہ گئے کیل، روموش مکمل ناپید ہوگئے ہیں۔ کئی سال پہلے کلکوٹ کے علاقے میں ایک روموش دیکھا گیا تھا۔ یہ شائد دیر کوہستان کا آخری روموش تھا اس کے بعد کسی شکاری سے روموش کا ذکر نہیں سنا۔ کیل اپنے وجود کی طرح شناخت بھی کھو چکا ہے۔ نئی نسل کو نہیں معلوم کہ کیل اور شرہ میں کیا فرق ہے دونوں کو شرہ سمجھا جاتا ہے۔ شرہ بھی اس لئے کہ وہ یہاں اب بھی تھوڑے بہت آتے ہیں۔ گرمیوں میں یہ چترال کے پہاڑوں میں ہوتے ہیں لیکن سردیوں میں جب وہاں سبزہ ختم ہوجائے تو پھر خوراک کی تلاش میں یہ سوات و دیر کوہستان کے بلند سرسبز پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔ چترال میں یہ کسی نہ کسی حد تک محفوظ رہتے ہیں کیونکہ وہاں ان کا غیر قانونی شکار بہت ہی کم ہوتا ہے لیکن سردیوں میں دیر کوہستان میں ان کا خوب
شکار کیا جاتا ہے۔
Mexican hunter hunted Markhor in Chitral with Rs 10 million permit, 2015 Dawn
Mexican hunter hunted Markhor in Chitral with Rs 10 million permit, 2015 Dawn
 یہ شکار کچھ مقامی لوگ کرتے ہیں یا ان کے باہر کے دوست عام آدمی کو ان سب کے بارے میں نہیں معلوم یا وہ خاموش ہے۔ یہ ہر سال ان دنوں یہاں آتے ہیں اور ایک دو نہیں درجنوں ساتھیوں جن میں نر مادہ بچے سب شامل ہیں ( یہ شکار وغیرہ کسی قاعدے قانون کے بغیر کیے جاتے ہیں، مخصوص ٹارگٹ کے بجائے پورے ریوڑ پر ریپیٹ فائر ہوتے ہیں) کے قربانی دے کر ابتدائی بہار میں واپس چترال جاتے ہیں۔ اس سال بھی بہت سارے آئے ہوئے ہیں۔ اس سال بھی بہت سارے مارے جائیں گے۔ پڑوس کے چترال اور گلگت بلتستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ انہوں نے اس شکار کو قانونی شکل دی ہے اور باہر کے بڑے بڑے لوگ بڑی بڑی رقمیں دے کر شرہ مارتے ہیں۔ یہ رقم کروڑوں میں ہوتی ہیں جیسے جنگل کی رائلٹی کی طرح پورے قوم میں برابر تقسیم ہوتی ہے۔ ہماری طرح ملک صیب کہنے پر شکار کی اجازت نہیں دیتے مارخور بیچتے ہیں وہ بھی  کروڑوں روپوں میں۔۔۔۔۔
اگر قوم چاہیے تو ہمارے ہاں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ لوکل گورنمنٹ یا وائلڈ لائف والے کچھ نہیں کر سکتے جب تک قوم کی مرضی نہ ہو۔ قوم شرہ کے شکار پر پابندی عائد کرے۔ مشران ہر گاوں، قبیلے، قوم سے چند لوگوں کو منتخب کرے جو شکار پر پابندی کو یقینی بنائیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دیں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ہم گندم کاشت کرتے ہوئے جانوروں پر یا جنگل کے کیسے حصے سے لکڑی لانے پر پابندی لگاتے ہیں۔ شکار پر پابندی کے بعد مخصوص قیمت پر مخصوص شرائط کے ساتھ قانونی شکار کی اجازت دے اور رقم قوم میں تقسیم کرے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ہم جنگل کی
رائلٹی آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔
Ibex, Dawn
Ibex, Dawn
کچھ قانونی پیچیدگیاں ہیں لیکن انہیں حل کیا جا سکتا ہے پہلا کام شکار پر پابندی کا ہے اور یہ صرف مقامی لوگ ہی کر سکتے ہیں کوئی اور نہیں۔ کسی چوکیدار کی ضرورت نہیں ہے بس آنکھیں کھلی اور کان کھڑے رکھنے کی ضرورت ہے کہ جنگل کے اندر اور باہر کیا ہو رہا ہے۔ بدلے میں قوم کو خطیر رقم کے ساتھ ساتھ علاقے کو شہرت ملے گی۔
(نوٹ: کھوار میں نر مارخور کو شرا جبکہ مادہ مارخور کو ماژیغ کہتے ہیں۔ یہ لوئر چترال میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح نر کیل یعنی آئی بیکس کو تونیشو جبکہ مادہ کیل کو مُورو کہتے ہیں۔ یہ زیادہ تر اپر چترال میں ہوتے ہیں۔)

2 thoughts on “شرہ ( مارخور)

  1. Such a great piece. Learned a lot about Markhor. Shara is the same word we use for Markhore in Shina language. Kindly write about Chitrali Cuisine.

  2. Thank you so much for commenting the first response on our newly launched website! You can find a whole book, Khwane Chitral, on the traditional dishes of Chitral in the E-books section above.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *