nano begal

چترال میں چوگان بازی زمانہ قدیم سے کھیلا جاتا ہے

انتخاب: عطا حسین اطہر

چترال ٹاؤن سے تین میل شمال کی طرف چترال کے دو بڑے دریا دریائے مستوج اور دریائے لٹکوہ ایک سنگلاخ پہاڑی چٹان کے دونوں جانب سے آکر بڑے ذوق و شوق کے ساتھ بغل گیر ہوتے ہیں۔دریائے مستوج ٹھاٹیں مارتا ہوا جبکہ دریائے لٹکوہ نہایت نرم لہجے میں کسی درناک المیے کو اپنی زبان میں بیان کرتا ہوا۔
بس نازک است شیشۂ دل در کنارِ ما
شاید اس کی سسکیوں میں چترال کے جنگجو بہادر دانیال بیگ کی حسرت ناک موت کی داستان اور یورمس بیگم کے تینوں بھائیوں کا بہتا ہوا لہو سنائی دیتا ہے مگر یہ داستان بیان کرنے کے لیے اس کی زبان گنگ ہے ۔شاید یہ دریا اس راز کو راز ہی رکھنا چاہتا ہے۔اگر ایک صدی گزرنے کے بعد بھی یہ دُرِ پنہاں صدف کے سینے میں مستور نہ ہوگا تو صدیوں پہلے کے حقائق آج کے افسانے بننے کے بجائے داستانیں بن جاتے ہیں۔
بیگال چترال کے وادیٔ لٹکوہ کے ایک خوبصورت گاؤں شغور کا باشندہ تھا جو کہ چترال سے پندرہ میل دور گرم چشمہ کے راستے میں واقع ہے۔بیگال اس تنگ وادی میں اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ پولو کھیلنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا اور بیگال اپنے زمانے کے پولو کے کھلاڑیوں میں یکتائے زمانہ تھا۔
بیگال مختلف پولو کے مقابلوں میں بہترین کھیل کامظاہرہ کرکے گلگت ،غذر اور پونیال کی ٹیموں سے مقابلہ جیت لیتا تھا اور اپنے زمانے کے حکمرانوں کا نام روشن کرتا۔
نوروز کے موقع پر دنیا کے مختلف حصوں میں جشن نوروز منایا جاتا ہے،کہتے ہیں کہ جس روز عالم آفتاب دنیا کے بارہ بروج کا دورہ کرتا ہوا برج حمل کے پہلے درجے پر آتا ہے ۔تو یہ وقت جشنِ نوروز منانے والوں کے لیے بڑا متبرک ہوتا ہے اسی دن چترال کے بالائی علاقوں میں نوروز کی خوشیاں منائی جاتی ہے۔ جس کو مقامی زبان میں ” پھتاک “کہتے ہیں ۔
کابل میں بابر نے اسی روز چٹان کھود کر ایک تالاب بنوایا۔اس چٹانی تالاب پر اس نے یہ شعر کندہ کروایا تھا۔
نوروز نو بہار مئے و دلبرے خوش است بابر با عیش کوش عالم دوبارہ نیست
“شغور”جنالی میں بھی جشن نورو کی مناسبت سے پولو کا بندوبست کرایا گیا تھا۔مہتر کی ٹیم اور بیگال کی ٹیم کا مقابلہ تھا۔ اس مقابلے میں بیگال کی ٹیم نے مہتر کی ٹیم کو شکست سے دوچار کیا۔شکست کے بعد مہتر تھکے ہارے جب قلعے میں پہنچا اور بستر پہ لیٹ گیا ۔توملکہ نے طنز کی اور کہا کہ اچھے کھیل کا مظاہرہ تو بیگا ل نے کیا ۔ہمارا مہتر ویسے ہی تھک جاتا ہے۔اس طنز کا مہتر پر بہت برا اثر ہوا،حسد کے مارے دوسرے دن بیگال کے ساتھ گھڑ دوڑ کے مقابلے کا چیلنج دیا اور راتوں رات جنالی(پولو گراونڈ) کے ایک حصے میں خندق کھدوا دیا اور اس کے اوپر بید کی باریک شاخیں ڈال کر مٹی سے ڈھانپ دیا تاکہ گھڑ دوڑ کے مقابلے کے دوران بیگال کا گھوڑا خندق میں گر کر بیگال سمیت ہلاک ہو جائے۔مگر وقت آنے پر بیگال کے گھوڑے نے خندق کے قریب پہنچ کر جست لگائی اور اپنے سوار کو بچایا۔مہتر کوپھر شکست اور خفت کا سامنا ہوا۔ تیسرے دن مہتر پھر پولو کے مقابلے کا پروگرام بنایا اور راتوں رات اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ بیگال کو قتل کیا جائے ۔صبح سورج کی شعاعیں جنگلی بوٹیوں پر پڑی ہوئی شبنم کے قطروں کو ہوا میں تبدیل کرتی گئی۔
مُت بیگم نے اپنی ساس سے کہہ دیا “بیگال آج دیر تک سویا رہا کیا میں اس کو جگا دوں؟ تو ساس نے بہو سے کہا کہ نہیں میرا بیٹا کل تھک گیا ہے اس کو دیر تک آرام کرنے دو۔وقت گزرتا گیا سورج کی شعاعیں تیز ہوتی گئیں۔سرخ رنگ کے جنگلی گلاب زرد رنگ کے خوشبو دار پھولوں سے ہم آغوش ہوکر مرغزاروں کو معطر کرنے لگے۔مُت بیگم پریشان سی ہوگئی ۔بیگال کا گھوڑا اس کے انتظار میں ہنہنانے لگا ۔گھر کے ستون میں لٹکا ہوا بیگال کا تازیانہ مُت بیگم کی دل کےدھڑکنوں کے ساتھ ساتھ ہلنے لگا ۔مُت بیگم بے قراری کے عالم میں بیگال کے سرہانے پہنچی۔بیگال کو آواز دی۔لیکن جواب نہ ملا ۔ جب غور سے دیکھا تو اس نے اپنی زندگی کے ساتھی کو موت کی آغوش میں پایا ۔منہ سی ایک چیخ نکلی اور غشی طاری ہوگئی ۔چیخ سن کر ماں بھی پہنچ گئی ۔بیٹے کی پیشانی پر بوسہ دے دیا ۔شفقت مادری کے چند قطرے آنسو کے گرے۔بہو کو تسلی دی۔ بیٹے کی لاش کو اسی طرح بستر پہ لٹا دیا۔دن ڈھل گیا۔”جنالی” میں لوگوں کا جمگھٹا نظر آرہا تھا۔ڈھول اور شہنائی کی آواز دور ہی سے سماعتوں میں رس گھول رہی تھی۔ تماشائیوں کا ایک جم غیر تھا۔مہتر اپنے گھوڑے پر سوار زیر لب مسکراتے ہوئے ڈینگیں بھی مار رہا تھاکہ آج میرا مقابلہ کون کرے گا۔
اسی اثنا میں دُور سے ایک گھڑ سوار گھوڑا دوڑاتا ہوانظر آیا ۔قریب آنے پر مہتر نے دیکھا اور کہا یہ گھوڑا تو بیگال کی ہے ۔انہوں نے سوچا کہ شاید قاتلوں نے مجھے دھوکا دیا ہے یا شاید انہوں نے غلط فہمی میں کسی اور کو قتل کیا ہوگا۔بیگال کا وہی انداز، وہی لباس، وہی خود سرپہ پہنے جنالی کے درمیاں میں اپنی ٹیم کے ساتھ گھڑا ہو گیا ۔ مہتر بہت نادم ہوا کہ اس کا منصوبہ آج بھی ناکام ہوا ۔کھیل شروع ہوا ۔بیگال کو جیت جانا تھا بیگال جیت گیا۔کھیل کے اختتام پر مہتر جنالی کے چبوترے پر سستانے کے لیے بیٹھ گیا۔۔بیگال اس کے سامنے آکر سر کو جنبش دی سر سے خود گر گیا ۔لمبے لمبے سفید بال غمگین چہرے پر پریشان ہوگئے۔مہتر حیرانگی کے عالم میں اس کو تکنے لگا تو وہ بولی اس گیند کو ایک بوڑھی عورت بھی ٹھو کر مار سکتی ہے میرے بچے کو تم نے قتل کیوں کیا۔یہ کہہ کر نہایت غمگین آواز میں اپنے بیٹے کا مرثیہ گانے لگی۔

میتارو بے رحمیو لو ہائے ننو بیگال
زخمی مہ ہردیو لو ہوئے ننو بیگال
ترجمہ: ہائے ہائےمیرا بیگال! مہتر کی بے رحمی اور اپنی بوڑھی ماں کے زخمی دل کو دیکھ کہ میرے دل پہ کیا گزر رہی ہے۔
ۻھویو تہ ماری بوغدو ہائے ننو بیگال
لیئے پازو جاری ب یرو ہائے ننو بیگال
ترجمہ: ہائے ہائے میرا بیگال راتوں رات ظالموں نے تجھے قتل کرکے چل دیئے۔اور خون کی دھاریں تیرے سینے میں جاری ہو گیئں۔
تہ استور ڷیندری بہچیتائے ہائے ننو بیگال
تہ چاغیز ڑینگی بہچیتائے ہائے ننو بیگال
ترجمہ: تمہارا گھوڑا تمہارے انظار مین ہنہنا رہا ہے اور تمہارا چابک تمہارے انتظار میں ہل رہا ہے۔
تہ یاران غاڑو بغانی ہائے ننو بیگال
تہ ماریکوت ہیت کو ہانی ہائے ننو بیگال
ترجمہ: تمہارے دوست پولو کھیلنے جنالی کی طرف گئے۔ مجھ پر یہ بات واضح نہیں کہ یہ لوگ تیرے خون کے پیاسے کیوں ہوگئے۔
ورازا دیکو پونگہ ہاڑے ہائے ننو بیگال
کر ا کوئے تہ غونہ غاڑے ہوئے ننو بیگال
ترجمہ: اگر تو جنالی کے ایک سرے پر گیند کو مارے تو دوسرے سری تک جاکے وہ گول ہوجاتا ہے ۔تیرے مقابلے کا کوئی بھی پولو میں نہیں کرسکتا ۔
بیگال کا یہ لوک گیت آج بھی پولو گراؤنڈ میں ڈھول کی تھاپ میں شہنائی پہ بجائی جاتی ہے ۔اس واقعے کا مہتر پر بڑا اثر ہو ا اور مہتر اپنے کیے پر پیشمان بھی ہوا۔کچھ مدت گزرنے کے بعد علاقہ غذر کے مہتر نے چترال کے مہتر کو پولو میچ کا چیلنچ دیا۔اس مقابلے میں مہتر چترال کو بری طرح شکست ہوئی ۔جبکہ بیگال کی زندگی میں مہتر کو کبھی بھی شکست کا سامنا نہیں ہو اتھا۔ اس وقت مہتر بہت نادم ہوکے بیگال کی قبر پر گیا اور بیگال کی روح سے معافی مانگی ۔اس وقت قبر سے یہ غیبی آواز آئی۔
رافیقا! در زندگانی قدر ما نہ شناختی بعد مردن در پائے تابوت نالیدن چہ سود۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *