لغلِ زمرود: چترال کی پہلی خاتون نرس انتقال کرگئیں

0
Laghl-e-Zamrud, the First Nurse of Chitral

تحریر: فخرعالم

چترال کی پہلی نرس لغلِ زمرود 6 اکتوبر 2023 کے دن 74 برس کی عمر میں چل بسیں۔ انہوں نے 1967 میں بطورِ نرس چترال میں اپنی خدمات کا آغاز کیا اور تربیت کے تین سال بھی ملائے جائیں تو انہوں نے زندگی کے 40 قیمتی سال اس شعبے کے لیے وقف کردیے۔

لغلِ زمرود نے 1949 میں اپر چترال کے علاقے بونی میں آنکھ کھولی۔ یہ وہ دور تھا جب چترال نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان تو کردیا تھا مگر روایتی ریاست اب بھی قائم تھی۔ ملک کے دوسرے علاقوں کی نسبت چترال میں تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔

ایسے میں 1950 کی دہائی میں بونی کی جامع مسجد میں لڑکوں کے لیے ایک سکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس دور میں لڑکیوں کی تعلیم کا تصور ناممکن تھا۔ لغلِ زمرود کا ایک چھوٹا بھائی تھا جسے سکول میں داخل کروایا گیا۔ ان کی عمر چونکہ کم تھی اس لیے لغل زمرود کو گھر والوں کی طرف سے بھائی کو سکول لے جانے اور واپس لانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ گھر والوں کے بظاہر اس معمولی فیصلے نے لغل زمرود کی زندگی بدل ڈالی۔

پولوگراؤنڈ سے متصل جامع مسجد بونی کی موجودہ عمارت جہاں سے لغلِ زمرد نے تعلیم حاصل کی

لغل زمرود روزانہ چھوٹے بھائی کو لے کر سکول جاتی، اس کی کتابوں اور بستے کا خیال رکھتی اور چھٹی ہونے پر واپس لے آتی۔ وہ سکول کے کمرۂ جماعت میں بھائی کے ساتھ بیٹھ جاتی۔ آہستہ آہستہ زمرود کو استاد کے پڑھائے گئے سبق میں دلچسپی محسوس ہونا شروع ہو گئی۔ استاد سبق پڑھاتے تو زمرود بھی دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر پڑھنے لگتی۔ ساتھ ہی اپنے بھائی کی کتابوں سے مدد بھی لیتی جاتیں۔

اس دوران ایک مسئلہ یہ پیش آیا کہ فارسی کے استاد کو زمرود کا لڑکوں کی جماعت میں بیٹھ کر سبق پڑھنا ناگوار گزرا۔ انہوں نے زمرود کو کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی۔ زمرود کا کہنا تھا کہ استاد کے اس رویے کی وجہ سے میں فارسی نہیں پڑھ سکی۔

اس کے باوجود تعلیم میں زمرود کی دلچسپی بڑھتی ہی چلی گئی مگر ایک دن ایسا آیا جب ماں باپ نے فیصلہ کیا کہ بیٹا اب اس قابل ہوگیا ہے کہ خود سے سکول جاکر واپس آ سکے۔ اس لیے اس کے ساتھ زمرود کو سکول بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ زمرود کو یہ جان کر بہت دکھ ہوا۔ وہ تعلیم چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ ایسے میں اس کے سکول کے اساتذہ کام آئے۔ زمرود کی تعلیم میں دلچسپی اور قابلیت دیکھ کر انہوں نے ان کے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ زمرود کو سکول بھیجتے رہیں۔

والدین نے اساتذہ کے مشورے کا احترام کیا اور زمرود بھائی کے ساتھ سکول جاتی رہی۔ مگر اس کے پاس پڑھنے کو اپنی کتابیں تک نہ تھیں۔ مجبوراً اسے اپنے بھائی کی کتابوں سے مدد لینا پڑتی تھی۔ وہ ہنس کر بتاتی تھیں کہ میں اپنے بھائی کی کتابوں سے سبق پڑھ کر نرس بن گئی۔ گھر والے اگر مجھے الگ کتابیں لے کر دیتے تو شاید میں ڈاکٹر بن جاتی!

بونی کے لڑکوں کے اس اسکول سے زمرود نے مڈل پاس کیا۔ تب تک ان کی قابلیت اور تعلیم حاصل کرنے کے شوق سے ان کے گھر والے آگاہ ہوچکے تھے۔ میٹرک میں پڑھنے کے لیے قریبی سکول 75 کلومیٹر دور چترال کے قصبے میں تھا جہاں جانے میں اچھا خاصا وقت لگتا تھا۔ زمرود کے گھر والوں نے انہیں چترال میں داخلہ کروا دیا جہاں وہ میٹرک تک زیرِتعلیم رہیں۔

 آغا خان کونسل کی طرف سے 1863ء میں کراچی سے ایک ٹیم چترال آئی۔ اس ٹیم کے دورے کا مقصد چترال سے تعلیم یافتہ خواتین ڈھونڈنا تھا جنہیں نرسنگ کی تربیت دے کر واپس چترال میں تعینات کیا جاسکے۔ اس ٹیم کو چترال کے طول و عرض میں زمرود سمیت صرف 4 خواتین ہی مل سکیں جنہیں جہاز کے ذریعے کراچی لے جایا گیا اور وہاں کھارادر میں موجود جانبائی میٹرنٹی ہوم میں تربیت کے لیے داخل کیا گیا۔ اس میٹرنٹی ہوم کو 1924 میں ایک خوجہ اسماعیلی بندہ علی قاسم نے اپنی والدہ کے نام پر تعمیر کرکے لوگوں کے لیے وقف کردیا تھا۔ یہ ادارہ آغا خان ہیلتھ سینٹر فار ویمن اینڈ چلڈرن کے نام سے اب بھی قائم ہے۔

جانبائی میٹرنٹی ہوم کھارادر کراچی جہاں سے لغل زمرد نے نرسنگ کی تعلیم حاصل کی۔
تصویر بشکریہ: Good Old Karachi

کراچی میں دو سال تربیت حاصل کرنے کے بعد لغلِ زمرود اور دوسری نرسز 1967 میں واپس لوٹیں۔ لوگوں کو علم تھا کہہ ان کی تعیناتی ہمارے لیے کسی رحمت سے کم نہیں ہوگی چنانچہ واپسی پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ راستے میں استقبالی دروازے کھڑے کیے گئے اور لوگ گھوڑوں پر سوارہوکر انہیں خوش آمدید کہنے چرون کے گاؤں تک گئے۔ زمرود کی پہلی تعیناتی گرم چشمہ میں ہوئی۔ اس وقت ان کی تنخواہ سو روپے تھی۔ نرسز کی سخت ڈیوٹی اور دوسرے شعبوں میں تعلیم یافتہ خواتین کی مانگ اور بہتر مراعات کی وجہ سے جلد ہی باقی تین نرسز نے نرسنگ کو خیرباد کہہ دیا۔ زمرود مگر اس شعبے سے اگلے 40 برسوں تک چمٹی رہیں۔ وہ دن بھر مریضوں کو دیکھتیں اور راتوں کو اچانک دور کسی گاؤں میں ڈیلیوری کیس ہوتا تو وہ دیکھنے کے لیے جانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتیں۔

گرم چشمہ میں ہی ان کی شادی ایک استاد محراب ولی سے ہوئی۔ اس شادی کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔ محراب ولی کا تعلق کوغوذی سے تھا اور وہ لوٹکوہ میں پڑھاتا تھا۔ وہ اسماعیلیوں کے گیارویں صدی کے ایک پیر حکیم ناصرِ خسرو کی کتابیں پڑھ کر متاثر ہوا اور ان کے حلقہء ادارت میں آگیا۔ پیر ناصرِ خسرو کو لوٹکوہ میں بہت احترام دیا جاتا ہے اور اس سے منسوب ایک زیارت گاہ بھی گرم چشمہ میں ہے۔ اس وجہ سے محراب ولی لوٹکوہ کے لوگوں کے قریب تھا۔ جب انہوں نے زمرود کے والدین سے ان کا ہاتھ مانگا اور انہوں نے رشتہ دینے سے کچھ وجوہات کی بنا پر انکار کردیا تو لوٹکوہ کے لوگوں نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا اور خود ہی دونوں کی شادی دھوم دھام سے کر ڈالی۔ دلہا اور دلہن، دونوں کو وہاں کے مقامی لوگ عزیز رکھتے تھے۔ مقامی رواج کے مطابق دلہا کی جانب سے دلہن کے گھر والوں کو سامان دینا ہوتا ہے۔ اس کے لیے لوٹکوہ کی تین وادیوں، ایژ، پرابیگ اور مُردان سے لوگوں نے ایک ایک گھوڑا پیش کیا جو دوسرے سامان کے ساتھ زمرود کے گھر والوں کو پیش کیے گئے۔ محراب ولی نے آگے جاکر بحیثیتِ مذہبی اسکالر نام کمایا، کتابیں تصنیف کیں اور اپنی مذہبی خدمات کی وجہ سے فدائی کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ پوری زندگی زمرود کا سہارا بنے رہے اور ان کے کام کی حوصلہ افزائی کی۔

لغلِ زمرود (بائیں طرف کھڑی) 1987 میں بونی میں پرنس کریم آغا خان کے ہمراہ

زمرود کی کسی علاقے میں پوسٹنگ وہاں کے مریضوں، بالخصوص خواتین اور بچوں کے لیے کسی رحمت سے کم نہ ہوتی تھی۔ طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے کئی خواتین اور نومولود بچے معمولی بیماریوں سے بھی مرجاتے تھے۔ زمرود ایک تربیت یافتہ نرس کی حیثیت سے مریضوں اور ڈیلیوری کے کیسز کے لیے آئی خواتین کی نگہداشت اور تیماداری میں رات دن ایک کرتیں۔

لغل زمرد ڈیوٹی کے دوران

وہ کہتی تھیں کہ کبھی کبھار ایک رات میں انہیں ڈیلیوری کے تین تین کیسز اٹینڈ کرنا پڑتے تھے۔ انہیں بچوں کی ویکسنیشن کے لیے زیادہ تر پیدل اور کبھی کبھار گھوڑے یا گاڑی پر دور دراز پہاڑی وادیوں میں سفر کرنا پڑتا تھا۔ وہ فخر سے یہ بات بتاتی تھیں کہ انہوں نے چترال کے مختلف علاقوں میں 23 صحت کے مراکز قائم کرنے میں مدد کی اور مڈوائفز کو تربیت دی۔

زمرود کی دیکھا دیکھی جلد ہی دوسری خواتین نے بھی نرسنگ کے شعبے کا رُخ کرنا شروع کردیا اور چترال میں زچہ و بچہ کے حوالے سے حالات بتدریج بہتر ہونا شروع ہو گئے۔ این جی اوز کے ساتھ ساتھ سرکاری طبی مراکز بھی بننا شروع ہوئے۔ 2004 میں چار دہائیوں تک چترال میں نرس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے کے بعد لغل زمرود ریٹائر ہوگئیں۔

ان کی خدمات کے اعتراف میں اُس سال اسی میٹرنٹی سینٹر میں انہیں مِڈوائفز کی گریجویشن کی تقریب میں بطورِ مہمان مدعو کیا گیا جہاں انہوں نے 40 سال پہلے خود تربیت حاصل کی تھی۔

لغل زمرود کو پورے چترال میں ان کی خدمات کی وجہ سے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ لوگ انہیں ’دائی بیچی‘ یعنی ’دائی خالہ‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ وہ ایک انٹرویو میں بتاتی ہیں، ‘پچھلے دنوں میں پیدل کہیں سے آرہی تھی کہ راستے میں مجھے ایک جوان ملا اور اصرار کیا کہ میں اپنی گاڑی لے کر آتا ہوں اور آپ کو ڈراپ کرتا ہوں اور اس نے ایسا ہی کیا۔ مجھے تو یاد بھی نہیں مگر اسے کسی نے بتایا تھا کہ اس کی پیدائش پر میں اپنے گھر میں کھانا پکاتے ہوئے چھوڑ کر گئی تھی اور کھانا جل گیا تھا! وہ اس بات کے عوض میری خدمت کرنا چاہتا تھا۔’

تصویر بشکریہ: فدائی ثانی

خواتین زمرود سے خصوصی محبت سے پیش آتی تھیں۔ وہ نہ صرف خواتین کو طبی مسائل کے حوالے سے مشورے دیتیں بلکہ انہیں بااختیار بننے، تعلیم حاصل کرنے اور اپنی اولاد کی بہترین نگہداشت اور تعلیم و تربیت دینے کی تلقین بھی کرتی تھیں۔ انہیں خواتین کی صلاحیتوں پر اعتماد تھا اور وہ کہا کرتی تھیں اگر خواتین کو برابر کے مواقع میسر آ جائیں تو وہ کسی بھی شعبے میں کارہائے نمایاں سرانجام دے سکتی ہیں۔

لغلِ زمرود کا انٹرویو ملاحظہ کریں

آج چترال کی طالبات میں نرسنگ کے پیشے کا انتخاب کرنے کا رجحان ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ طالبات چترال میں نرسنگ سکول نہ ہونے کی وجہ سے پشاور، اسلام آباد اور کراچی جاکر نرسنگ کی تربیت حاصل کرتی ہیں اور نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک بھی زبردست خدمات انجام دے رہی ہیں۔

چترال سے تعلق رکھنے والی نرسز کی بڑی تعداد حالیہ برسوں میں کویت، دبئی اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ بھی جا رہی ہیں۔ خود چترال کے اندر آغاخان ہیلتھ سروس اور حکومت کے بنائے گئے طبی مراکز اور ہسپتالوں میں سینکڑوں نرسز مریضوں کی نگہداشت اور علاج کررہی ہیں۔ لغلِ زمرود ان سب کے لیے مشعلِ راہ ہیں جنہوں نے تنِ تنہا آج سے نصف صدی پہلے اس علاقے میں بطورِ نرس لوگوں کی خدمت کی اور دوسری کئی خواتین کے لیے مثال قائم کی کہ وہ اس اہم پیشے کی طرف آکر دکھی انسانیت کی خدمت کریں۔

مصنف لغلِ زمرود کے ساتھ، وفات سے ایک سال پہلے

Posted on 11 October 2023


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *